روز گناہ کرتا ہوں وہ چھپاتا ہے اپنی رحمت سے
میں مجبور اپنی عادت سے ، وہ مشهور اپنی رحمت سے
کسی کا عشق کسی کا خیال تھے ہم بھی
گئے دنوں میں بہت با کمال تھے ہم بھی
وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھ کر
میں نے اس کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیں
تیرا مغرور ہو جانا بجا تھا
مجھے تجھ سے محبت جو ہو گئی تھی
پہلے پیار کرتا ہے پھر اقرار کرتا ہے
محبت بھی انسان اک بار کرتا ہے
مصروف زندگی میں تیری یاد کے سوا
آتا نہیں ہے کوئی میرا درد بانٹنے
کسی نے پوچھا عشق کیا ھے ۔۔۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔
اور
۔۔۔
۔۔۔
اور
۔۔۔۔
۔۔۔
جواب ملا
کرنے والے کی موت
درد اٹهتا ہے تو تصور میں آجاتے ہیں وہ
خدا میرے درد کی عمر دراز کرے
دل تڑپ تڑپ کر تمہیں یاد کرتا ہے
محسوس کرتا ہے درد مگر بول نہیں سکتا
میں روز کہتا ہوں خوش رہو تم
تم روز کہتی ہوں درد ہیں مجھے
کیوں ہر اک شخص مجھے درد دے جاتا ہے
کیا میرے دل پہ لکھا ہے یہاں درد لیئے جاتے ہیں
درد اٹهتا ہے تو تصور میں آجاتے ہیں وہ
خدا میرے درد کی عمر دراز کرے
طلب موت کی کرنا گناہ کبیرہ ہے
مرنے کا شوق ہے تو عشق کیوں نہیں کرتے
طلب موت کی کرنا گناہ کبیرہ ہے
مرنے کا شوق ہے تو عشق کیوں نہیں کرتے
ہم اس کی آس میں یوں بیٹھے ہیں
جیسے لاعلاج کو انتظار ہو موت کا
آج تیری گلیوں سے گزری ہے میت میری
دیکھ مرنے کے بعد بھی ہم نے راستہ نہیں بدلا
ہم اس کی آس میں یوں بیٹھے ہیں
جیسے لاعلاج کو انتظار ہو موت کا