نفرت کرتے ہو نہ مجھ سے تو اس قدر کرنا
کہ میں دنیا سے جاؤں اور تیری زبان پر لفظ شکر ہوں
آج تیری گلیوں سے گزری ہے میت میری
دیکھ مرنے کے بعد بھی ہم نے راستہ نہیں بدلا
ہم اس کی آس میں یوں بیٹھے ہیں
جیسے لاعلاج کو انتظار ہو موت کا
ٹوٹ جائے گا تیری نفرت کا محل اس وقت
جب ملے گی خبر تجھ کو کہ ہم نے یہ جہاں چھوڑ دیا
نفرت کرتے ہو نہ مجھ سے تو اس قدر کرنا
کہ میں دنیا سے جاؤں اور تیری زبان پر لفظ شکر ہوں
آج تیری گلیوں سے گزری ہے میت میری
دیکھ مرنے کے بعد بھی ہم نے راستہ نہیں بدلا
طلب موت کی کرنا گناہ کبیرہ ہے
مرنے کا شوق ہے تو عشق کیوں نہیں کرتے
گزر ہی جائے گی حیات آخر یہ کونسا تاحیات ہے
کانچ کے ٹکڑے بن کر بکھر گئ زندگی میری
کسی نے سمیٹا بھی نہیں ہاتھ زخمی ہونے کے ڈر سے
بنا دھاگے کی سوئی جیسی بن گئی ہے زندگی
سلتی کچھ نہیں بس چبھتی جا رہی ہے
بنا دھاگے کی سوئی جیسی بن گئی ہے زندگی
سلتی کچھ نہیں بس چبھتی جا رہی ہے
گزر ہی جائے گی حیات آخر یہ کونسا تاحیات ہے
اتنی ساری یادوں کے ہوتے ہوئے بھی جب دل میں
ویرانی ہوتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے
خاموشیاں بے وجہ نہیں ہوتی
کبھی کبھی لوگ مر جاتے ہیں موت سے پہلے
خاموشیاں بے وجہ نہیں ہوتی
کبھی کبھی لوگ مر جاتے ہیں موت سے پہلے
خواب کیا دیکھیں تھکے ہارے لوگ
ایسے سوتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
کچھ مر سا گیا ہے میرے اندر
دل اب حسرتیں نہیں کرتا
اتنی ساری یادوں کے ہوتے ہوئے بھی جب دل میں
ویرانی ہوتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے
دل تڑپ تڑپ کر تمہیں یاد کرتا ہے
محسوس کرتا ہے درد مگر بول نہیں سکتا
مصروف زندگی میں تیری یاد کے سوا
آتا نہیں ہے کوئی میرا درد بانٹنے