وہ جو محو تھے سر آئنہ پس آئنہ بھی تو دیکھتے کبھی روشنی میں وہ تیرگی کو چھپا ہوا بھی تو دیکھتے تو یہ جان لیتے کہ سچ ہے کیا یہ جو فرد جرم ہے سب غلط وہ جو پڑھ کے متن ہی رہ گئے کبھی حاشیہ بھی تو دیکھتے سر آب جو رہے تشنہ لب تو یہ ضبط غم کی ہے انتہا مرے حال پہ تھے جو نکتہ چیں مرا حوصلہ بھی تو دیکھتے وہ اتر گئے تھے جو پار خود مجھے بیچ بحر میں چھوڑ کر تھا جو ان میں اتنا ہی حوصلہ مجھے ڈوبتا بھی تو دیکھتے جنہیں مجھ سے ہے یہ گلہ کہ میں رہی بے نیاز خلوص و ربط میرے گرد رسم و رواج کا کبھی دائرہ بھی تو دیکھتے وہ مری خوشی سے ہیں خوش گماں کہ نشاط زیست ہے مدعا مرے اشک غم کا رکا ہوا کبھی قافلہ بھی تو دیکھتے