جو اُتر کے زینئہ شام سے، تری چشمِ تر میں سما گئے
وُہی جَلتے بجھتے چراغ سے، مرے بام و دَر کو سجا گئے
یہ جو عاشقی کا ہے سلسلہ، ہے یہ اصل میں کوئی معجزہ
کہ جو لفظ میرے گُماں میں تھے، وہ تری زبان پہ آگئے 
وہ جو گیت تم نے سُنا نہیں، مِری عُمر بھر کا ریاض تھا
مرے درد کی تھی وہ داستاں، جِسے تم ہنسی میں اُڑاگئے
وہ تھا چاند شامِ وصال کا، کہ تھا رُوپ تیرے جمال کا
مری روح سے مِری آنکھ تک، کِسی روشنی میں نہا گئے
وہ عجیب پُھول سے لفظ تھے، ترے ہونٹ جن سے مہک اُٹھے
مِرے دشتِ خواب میں دُور تک، کوئی باغ جیسے لگا گئے
اداسی ، رنج ، اذیت ، خسارے آجائیں
 ہے جن سے گہرا تعلق وہ سارے آجائیں
تم اپنے اشک گراؤ مری ہتھیلی پر 
مبادا پاؤں کے نیچے یہ تارے آجائیں
کسی طرح تو یہ سکراتِ ہجر ٹوٹے بھی 
اٹھا کے رحل ، وظیفے ، سپارے آ جائیں
میں عشق کر کے بھی زندہ ہوں ، دیکھنے کے لیے
 یہ ششدران ، یہ حیرت کے مارے ، آ جائیں  
پناہ چاہئیے ؟ دی جان کی امان ، سو آپ
 بلا جھجھک یہاں ، دل میں ہمارے آ جائیں
میں ایک پیڑ ہوں ، کہنے کی دیر ہے کومل 
سبھی کے ہاتھوں میں کلہاڑے ، آرے آجائیں
دل کے قرطاس پہ اک لفظ ‘محبت’ لکھنا 
🌹جو کبھی عشق میں کی تھی، وہ ریاضت لکھنا 
لکھنے بیٹھو جو کبھی دل کی حکایت کوئی 
🌹نام اس میں مرا تم حسب روایت لکھنا 
پنکھڑی پھول کی لب، آنکھ ہے گہرا ساگر 
🌹ابرو ہیں تیغ سے اور __ چال قیامت لکھنا 
بھولنے والے ___ اگر یاد کبھی آ جاؤں 
🌹بھیگی پلکوں سے فقط اشک ندامت لکھنا 
اے غم عشق، مرے پاؤں کے چھالے گن کر 
🌹دشت الفت کییہ مجبور مسافت لکھنا 
🌹یاد ہے پہلی محبت کی خماری اب تک 
وہ درختوں پہ ترا نام مسرتؔ __ لکھنا
"صدیاں گزر گئیں تیرے انتظار میں
ꪶ✍️اے مرگِ ناگہاں میری طاقت تمام شد"
مُجھے آرزوۓ سحــــــر رہی یونہی رات بھـــــــــر بڑی دیر تک
نہ بِکھر سکے نا سِمٹ سکے، یونہی رات بھر بڑی دیر تک !!!...
ہے بہت عذاب اور اکیلے ہم ، شِب غم بھی میری طویل تر ۔۔۔۔
رہی زندگی بھی ســــــراب اور، رہی آنکھ تر بـــــڑی دیر تک !!!
یہاں ہر طرف ہے عجب سماں، سبھی خُود پسند، سبھی خود نما
دلِ بے قــــــــرار کو نہ مِلا، کوئی چارہ گــــــــر بڑی دیر تک !!!
مُجھے زندگی ہے عزیز تر اِسی واسطے میرے ہمسفر ۔۔۔۔ !
مُجھے قطـــــرہ قطـــــرہ پِلا زہر ، جو کرے اثر بڑی دیر تک !!!
نہ سکونِ جاں نہ شریکِ غم، مِلا اس جہاں میں چار سُو ۔۔۔۔
تیری یاد تھی میــــــرے ساتھ جو رہی، در بدر بڑی دیر تک !!!
یہاں شہرِ دل بھی اُداس ہے اور اجاڑ اجاڑ سی راہ گزر ۔۔۔۔۔۔
رہے تیرے بعد دُھواں دُھواں، میرے بام و در بڑی دیر تک !!!
غزل
کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں 
شاید اس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں 
نہیں ایسا بھی کہ اک عمر کی قربت کے نشے 
ایک دو روز کی رنجش سے ٹھکانے لگ جائیں 
یہی ناصح جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں 
تجھ کو دیکھیں تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں 
ہم کہ ہیں لذت آزار کے مارے ہوئے لوگ 
چارہ گر آئیں تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں 
ربط کے سینکڑوں حیلے ہیں محبت نہ سہی 
ہم ترے ساتھ کسی اور بہانے لگ جائیں 
ساقیا مسجد و مکتب تو نہیں مے خانہ 
دیکھنا پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں 
قرب اچھا ہے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل 
یہ نہ ہو تجھ کو مرے روگ پرانے لگ جائیں 
اب فراز آؤ چلیں اپنے قبیلے کی طرف 
شاعری ترک کریں بوجھ اٹھانے لگ جائیں
وفا کے قیدخانوں میں سزائیں کب بدلتی ھیں
بدلتا دل کا موسم ھے ھوائیں کب بدلتی ھیں
لباد٥ اوڑھ کر غم کا نکل جاتے ھیں صحرا کو
جواب آئے کہ نہ آئے ، صدائیں کب بدلتی ھیں
سروں پر دھوپ ھے غم کی، دلوں میں وحشتیں کتنی
 ھمارے دل کے صحرا کی فضائیں کب بدلتی ھیں
کوئی پاکر نبھاتا ھے ، کوئی کھو کر نبھاتا ھے
نئے انداز ھوتے ھیں ، وفائیں کب بدلتی ھیں
کہاں آ کے رُکنے تھے راستے، کہاں موڑ تھا، اُسے بُھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اُسے بُھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سُن، اُسے بُھول جا، اُسے بُھول جا
میں تو گُم تھا تیرے ہی دھیان میں، تِری آس، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں، میرے ساتھ آ، اُسے بُھول جا
کِسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بُھلا دیا، تُوبھی مُسکرا، اُسے بُھول جا
کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں، کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا، اُسے بُھول جا
کیوں اَٹا ہوا ہے غبارمیں، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درج تھا ترے بخت میں، سو وہ ہو گیا، اُسے بُھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لیے، ترا جاگنا، اُسے بُھول جا
کتاب آنکھیں، فسانہ چہرہ،  غزل نگاہیں، حسین مکھڑا
ردیف رنگت ،  قوافی زلفیں، ہنسی سفینہ، نگین مکھڑا
رباب  بندش،  بدن  قصیدہ،  گریز   جوبن،   بہار   فتنہ
شباب مصرعہ، جمال مطلع، قتال مقطع،   متین  مکھڑا
کمال  لہجہ،  نفیس  باتیں،  وقار   فقرے،   بلند   آہنگ
سلگتی قربت، پگھلتا نخرہ، ادائیں  قاتل،  معین  مکھڑا 
فصیح  ابرو،  بلیغ  پلکیں،  سلاسی  زلفیں،  ثقیل   جُوڑا
ذقن لطیفی ،نظر رموزی، حسن  رباعی،  فطین  مکھڑا 
بیاں  شگفتہ،  خیال  سادہ،  مزاج  منطق،  سلیس  جملے
سراپا سخنی ، لطیف جسمی، وجود نظمی ، سبین مکھڑا
 جمیل مکھڑا، نظیر مکھڑا، عقیق  مکھڑا،  عتیق  مکھڑا 
 نسیم مکھڑا، رفیق مکھڑا،  عظیم  مکھڑا،  مبین  مکھڑا
سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام 
ہر سر میں ہے رنگ دھنک کا تیرے نام 
ہجر کی شب اکیلی رات کے خالی در
صبح فراق کا زرد اجالا تیرے نام 
تیرے بنا جو عمر بیتی بیت گئی
اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام 
ان شاعر آنکھوں نے جتنے رنگ چنے
ان کا عکس اور میرا چہرہ تیرے نام 
دکھ کے گہرے نیلے سمندر میں خاور
اس کی آنکھیں ایک جزیرہ تیرے نام
پھولوں کو دیکھ دیکھ کے شرما رہے ہیں آپ
کھلتا ہوا گلاب نظر آ رہے ہیں آپ
چہرے سے اپنے ریشمی آنچل ہٹایۓ
اس چاند سے، یہ زلف کا بادل ہٹایۓ
گھونگٹ کی چلمنوں میں چھپے جارہے ہیں آپ
پھولوں کو دیکھ دیکھ کے شرما رہے ہیں آپ
کھلتا ہوا گلاب نظر آ رہے ہیں آپ
ان تھر تھراتے ہونٹوں سے کچھ کام لیجیۓ 
میں غیر تو نہیں ہوں میرا نام لیجیۓ 
کیسی حیا ہے غیر بنے جا رہے ہیں آپ
پھولوں کو دیکھ دیکھ کے شرما رہے ہیں آپ
کھلتا ہوا گلاب نظر آرہے ہیں آپ
سہرے میں بندھ گئی ہے محبت کی ہر قسم
دنیا نے لاکھ روکا مگر مل گئے ہیں ہم
پھر داستان عشق کو دہرا رے ہیں آپ
پھولوں کو دیکھ دیکھ کے شرما رہے ہیں آپ
کھلتا ہوا گلاب نظر آرہے ہیں آپ
ہجر کے لمبے دن، جیسے ریت کا صحرا
جہاں راستہ بھی خواب بن کر
قدموں کے نیچے ٹوٹتا رہتا ہے۔
ادھورے لمحوں کے سائے
دھوپ میں بھی سیاہی لے آتے ہیں،
اور سخن کی نمی
دل کے کاغذ پر پھیل کر
موسم کا رنگ بدل دیتی ہے۔
دریچے کے اس پار
دو آنکھیں کھلی رہتی ہیں،
جن میں بارش رکی ہوئی ہے،
جیسے کوئی وعدہ،
جو پورا ہونے سے پہلے سو گیا ہو۔
میں خوابوں کی وسعت بڑھانا چاہتا ہوں،
مگر ہجر کے اندر
ایک خاموش زوال ہے،
جو ہر دن،
میرے اندر سے میرا ہی سایہ مٹا دیتا ہے۔
راہ دے وچ ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھلونا اوکھا
اپنا آپ ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکونا اوکھا
اینی ودھ گئی ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا داری
کلیاں بہہ کہ ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رونا اوکھا
داغ محبت والا ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلھیا
لگ جاوے تے ' ۔۔۔۔۔۔۔ دھونا اوکھا
جھلیا ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق کمانا اوکھا
کسے نوں ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار بنانا اوکھا
پیار پیار تے ' ۔۔۔۔۔ ھر کوئی کوُکے
کر کے پیار ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبھانا اوکھا
ھر کوئی ' دُکھاں تے ھس لیندا
کسے دا درد ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ونڈانا اوکھا
گلاں نال نہیں ' ۔۔۔۔۔۔۔ رُتبے ملدے
جوگی بھیس ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وٹانا اوکھا
کوئی کسے دی ' گل نئیں سن دا
لوکاں نوں ' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھانا اوکھا
تم کو ہماری چال کی "چ" تک نہیں پتہ 
تم پھنس گئے ہو جال میں یہ تک نہیں پتہ 
یہ عین شین قاف بھلا کیا کرو گے تم 
تم کو تو پیار کی ابھی "پ" تک نہیں پتہ 
دکھ درد میں نبھاؤ گے تم ساتھ کس طرح 
تم کو ہمارے حال کی "ح" تک نہیں پتہ
رکھوالی اور پہرے میں کچھ فرق ہوتا ہے 
اس فرق کی تم ایسوں کو "ف" تک نہیں پتہ 
ہم کو ترے مزاج کی پت جھڑ نے کھا لیا 
ہم کو کسی بہار کی "ب" تک نہیں پتہ
کیا خاک سمجھو گے مری آنکھوں کا خالی پن  
ان رتجگوں کی تم کو تو "ر" تک نہیں پتہ
ہم مبتلائے عشق تھے سو مبتلا رہے 
ہم کو کسی فرار کی "ف" تک نہیں پتہ
طے کروں گا یہ اندھیرا میں اکیلا کیسے
میرے ہم راہ چلے گا مرا سایہ کیسے
میری آنکھوں کی چکا چوند بتا سکتی ہے
جس کو دیکھا ہی نہ جائے اُسے دیکھا کیسے
چاندنی اُس سے لپٹ جائے ہوائیں کھیلیں
کوئی رہ سکتا ہے دنیا میں اچھوتا کیسے
میں تو اُس وقت سے ڈرتا ہوں کہ وہ پوچھ نہ لے
یہ اگر ضبط کا آنسو ہے تو ٹپکا کیسے
یاد کے قصر ہیں امید کی قندیلیں ہیں
میں نے آباد کیے درد کے صحرا کیسے
اسلئیے صرف خدا سے ہے تخاطب میرا
میرے جذبات کو سمجھے گا فرشتہ کیسے
گر سمندر ہی سے دریاؤں کا رزق آتا ہے
اُس کے سینے میں اتر جاتے ہیں دریا کیسے
کیسے ہر سانس میں آ جاتا ہوں فردا کے قریب
پھر بھی فردا مجھے دے جاتا ہے دھوکا کیسے
زلف سے، چشم و لب و رخ سے، کہ تیرے غم سے
بات یہ ہے کہ دل و جاں کو رہا کس سے کریں
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جُدا کِس سے کریں
تو نہیں ہے تو پھر اے حسن سخن ساز بتا
اس بھرے شہر میں ہم جیسے ملا کس سے کریں
دل تو جگنو ھے، ستارہ نہیں ھونے والا
اب ہمیں عشق دوبارہ نہیں ھونے والا
دل کہیں اور نکل آیا ھے ، پاگل دُنیا
اب یہ درویش تمھارا نہیں ھونے والا
چاہِ عُشّاق پہ زم زم کا گماں ھوتا ھے
اِس کا پانی کبھی کھارا نہیں ھونے والا
شاہِ ہجراں ! تُو سخی ھے تو بڑھا دے مِرے دُکھ
میرا اک غم سے گزارا نہیں ھونے والا 
خود نکلنا ھے ہمیں خود کو بچانے کے لئے
غیب سے کوئی اشارہ نہیں ھونے والا
رزق کی طے شدہ تقسیم بہت واضح ھے
جو تمھارا ھے،  ھمارا نہیں ھونے والا
کھلا یہ راز کہ وہ رازدان تھا ہی نہیں
زباں تھی ایک مگر ہم زبان تھا ہی نہیں
سفر تمام ہوا.......... تب ہمیں بتایا گیا 
زمین تھی ہی نہیں ....آسمان تھا ہی نہیں
🌹جو میرے درد پہ آنکھیں لہو .....لہو کرتا 
وہ ربط اس کے مرے درمیان تھا ہی نہیں  🌹
ملادے بچھڑے ہوؤں کو جو اپنی منزل سے 
مرے نصیب میں وہ کاروان ......تھا ہی نہیں 
ہمارے دل پہ جو چھایا  تھا ہجر کا موسم 
عذاب تھا وہ کوئ ....امتحان تھا ہی نہیں..
🌹یقین کرتا رہا ہوں میں جس کی چاہت پر 
ہمارے عشق کا اس کو گمان تھا ہی نہیں...🌹
میں جس کے شانے پہ سر رکھ کے رو دیا *طاہر* 
وہ شخص مجھ پہ کبھی مہربان.....تھا ہی نہیں
اداسی ، رنج ، اذیت ، خسارے آجائیں
 ہے جن سے گہرا تعلق وہ سارے آجائیں
تم اپنے اشک گراؤ مری ہتھیلی پر 
مبادا پاؤں کے نیچے یہ تارے آجائیں
کسی طرح تو یہ سکراتِ ہجر ٹوٹے بھی 
اٹھا کے رحل ، وظیفے ، سپارے آ جائیں
میں عشق کر کے بھی زندہ ہوں ، دیکھنے کے لیے
 یہ ششدران ، یہ حیرت کے مارے ، آ جائیں  
پناہ چاہئیے ؟ دی جان کی امان ، سو آپ
 بلا جھجھک یہاں ، دل میں ہمارے آ جائیں
میں ایک پیڑ ہوں ، کہنے کی دیر ہے کومل 
سبھی کے ہاتھوں میں کلہاڑے ، آرے آجائیں
تُمہارے لَمسْ کا  اِک قَرْض  مجھ پہ واجَب ہے
نَزَع سے  پہلے مِلو  چُھو کے  سُرخرُو ٹھہروں!  
تُمہارا   حُسن   جو   اِک   عارضی  حوالہ   ہے
میں تُم سے عِشق کروں. اِس کی آبرُو ٹھہروں
مجھے نظر  میں سمو لو  یہ  میری خواہش ہے
تمہارے   دل  میں  رہوں  اور   رُو برُو ٹھہروں
میں شاعری ہوں مِرے لفظ ڈھونڈتے ہیں تمہیں
مِرا   خیال    بنو    تو    میں   خُوبرُو ٹھہروں
submitted by 
uploaded by 
profile: 
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain