نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی
غالب
بنا کر اپنی ذات کا عادی
اب عبید آنکھ کیوں چراتے ہیں
عبید رضا عباس
تلاش لائیے ایسا کوئی زمانے میں
بدن تھکن کو نہ محسوس کر سکے جس کا
ع ر ع
رکھتا لحاظ آپ کا پر میں نشے میں ہوں
غالب کی دقیق مرصع سازی
یک قدم وحشت سے دفتر امکاں کھلا
جادہ اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا ۔
:نوٹ
اس شعر کو پڑھنے کے بعد لغت کا سہارا لینے والے بھی عبید کو بحور اور اوزان کا درس دیتے ہیں ۔
اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم
حبیب جالب
قطعہ
تخلیق کائنات کو دیکھا ہے بارہا،
شبیر ع انتہا ہے خدا کے کمال کی
جب تک خدا (ج) رہے گا رہے گی حسینیت
کتنی دراز عمر ہے زہرا کے لال کی
شوکت رضا شوکت
رباعی
عبرت ہے کہاں لوگو خالق کا ولی ہونا
عبرت ہے جہاں والوں بندے کا جلی ہونا
گر کوئی خلق ہو کر اکبر ع ہو تو حیرت کیا؟
حیرت ہے زمانے میں اصغر ع کا علی ہونا
سرکار علامہ غضنفر عباس تونسوی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ
ابو الفصاحت سلطان العلما ، سلطان الشعرا جنت مکانی غضنفر عباس تونسوی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک نظم کا بند ملاحظہ بفرمائید
۔
کچھ ماہ مکرم ہیں یہ فرمان ہے رب کا
اکرام بھی لازم ہے ہر ایک پہ سب کا
ویسے تو ہے چاروں میں ہر ماہ غضب کا
کچھ اور مقدر ہے مگر، ماہ رجب کا
کیا بات ہے اس شہرِ خدا گاہ میں لوگو
کتنے ہی علی (ع) اترے ہیں اس ماہ میں لوگو
نہ جانے کتنے "دسمبر" چلے گئے آ کر
مگر وہ زخم ابھی تک ہرا سا لگتا ہے
استاد محترم اسحاق اثر اندوری
ہم کو نہیں بھاتی کوئی اس دور کی لیلا
اجداد سے ورثے میں ملی ہیر پرانی
اور کچھ بھی نہیں پاس مرے تجھ پہ لٹاؤں
جاگیر کی صورت ہے وہ تصویر پرانی
بیٹی سے رواں اب تو جہالت کی روش ہے
جدّت بھرے ماحول میں تقدیر پرانی
پگڑی کبھی سرداری کبھی ذات کا رونا
پیروں میں پڑی ہے وہی زنجیر پرانی
یہ پاک وطن باقی جہاں عدل نہیں ہے
اقبال کے خوابوں کی ہے تعبیر پرانی
سب میرے بزرگوں کی دعاؤں کا اثر ہے
پائیں گے مری باتوں میں تاثیر پرانی
سجل کانپوری
یونہی
۔
ایک حیرت بصارتوں میں دکھی
گل بدن سامنے تھا آنکھ کے جب
دو متفرق اشعار ۔
نفرتوں کے امین ہو گئے وہ
جو محبت کی بات کرتے تھے
۔ ۔ ۔
ہاتھ آتی نہیں انھیں منزل
جو بھی مخلص کی مخلصی بھولے
عبید رضا عباس
احباب! شعر سے حظ اُٹھائیں
۔
بے بسی جیسے ملکیت ہو مری
اور رعایا ، مری حیات کے دکھ
عبید رضا عباس
غزل
دیے جلیں گے بجھیں گے ہوا کے آگے بھی
قدم تو رک نہیں سکتے فنا کے آگے بھی
خودی کا سجدہ نہ پہنچا درِ الہی تک
اڑا ہوا تھا کوئی سر انا کے آگے بھی
فقط زمین کی خبریں نہیں ہیں اپنے پاس
نگاہ رکھتے ہیں تحت الثریٰ کے آگے بھی
صدی کا کرب تو لمحے سمیٹ سکتے ہیں
پہنچ کے دیکھ سماعت صدا کے آگے بھی
فقیر لوگ متانت مزاج ہوتے ہیں
نہ خالی ہاتھ گئے ہم غنا کے آگے بھی
اثرؔ سوال کی زد پر نہیں ہوں تنہا مَیں
یہ مسئلہ تو رکھا ہے ہَوا کے آگے بھی
اسحاق اثر اندوری
ہم ملیں گے کہیں
اجنبی شہر کی خواب ہوتی ہوئی
شاہراہوں پہ
اور شاہراہوں پر پھیلی ہوئی دھوپ میں
ہم ملیں گے کہیں
کون و مکاں سے پرے غیر آباد سیارہء آرزو میں
صدیوں سے خالی پڑی پہنچ پر

ہم مِلیں گے
کِسی اور آسمان کے نیچے
خاک سے اٹے ہُوئے کِسی اٙن دیکھے دیار میں
اجنبی قیام گاہوں کے درمیان
موسلا دھار بارش میں
کِسی موڑ پر
لیمپ کی زرد روشنی کے نیچے
ٹین کی چٙھتوں کے مُسلسل شور میں
اور نہیں مِل پائیں گے شاید
ہمیشہ کی طرح!!

مری کوشش ہے اب بارہ مہینے دل ملے لیکن
مرے گیارہ مہینوں کو "دسمبر" مار دیتا ہے
جنت مکانی اسحاق اثر اندوری
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain