CHASE PIECE OF MIND INSTEAD OF PEOPLE 
استاد محترم کا شعر کاش آج وہ زندہ ہوتے اور اپنے شعر کو محسوس کرتے ۔
کچھ روز اور ٹھہرو زمانہ وہ آئے گا
خوشیوں کو دیکھ دیکھ کے ہوں گے اداس لوگ
اشعار کے چھوٹے بڑے ہونے پر ایک دفعہ بحث ہوئی ۔
مجھ سے کہنے لگے شعر بس شعر ہوتا ہے چھوٹا یا بڑا کچھ نہیں ہوتا ۔
تو میں نے ان صاحب سے کہا کہ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں اشعار بھی چھوٹے بڑے ہوا کرتے ہیں ۔
دو بڑے اشعار کی مثالیں دیکھیے
منظر اک اور بلندی پہ ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا۔ (غالب)
جوانی ہے دل آ جانے کے دن ہیں
عقل مندو! یہ سمجھانے کے دن ہیں۔ (شاد عارفی)
سادہ شعر
ہر ایک رات کو ماہتاب دیکھنے کے لیے
میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے۔ (اظہر عنائتی)
عطائے کبریا میں شک نہیں کچھ
ہمیں ہی مانگنے کا فن نہیں ہے
عبید رضا عباس
سنا رہے ہو کسے اپنی داستان عبید
یہاں تو کوئی طرفدار آدمی کا نہیں
ع ر ع
یہ جانتا ہے کہ نقصان ہے ثمر اس کا
مگر (عبید) کی لالچ تو کم نہیں ہوتی
عقیدت
نبی کا ویر ، نصیری کا کردگار عبید
مجھے وہ عہدہ بتا جو علی سے اونچا ہے ؟
عبید رضا عباس
جب امتحان زیست میں ثابت قدم رہا
طوفاں مصیبتوں کا مرے سر سے ٹل گیا
عبید رضا عباس
جن میں موجود بز دلی ہے انھیں
زندگی نا گوار لگتی ہے
ع ر ع
ممکن نہیں کہ عدل ہو ایسے سماج میں
عزت جہاں بشر کو ملے دیکھ بھال کر
ع ر ع
ہر کوئی موت کے آگے بے بس
زندگی تو میاں بدنام ہے بس
ع ر ع
کوڑے کے ڈھیر سے جنھیں کھانا نصیب ہو
تو ان سے جا کے پوچھ ذرا روٹیوں کے بھاؤ
دن رات آزمائشوں کے درمیاں ہوں مَیں
اچھے سے جانتا ہوں کھری کھوٹیوں کے بھاؤ
عبید رضا عباس
دیکھ لی ہوں گی خوبیاں مجھ میں
جو مرا احترام کرتے ہیں
ع ر ع
جو آپ کہہ رہے ہیں مجھے مسکرانے کا
آسان اس قدر نہیں صدمات بھولنا
چہرہ تغیرات سے چاہ کر نہ بچ سکا
جب بھی کسی کے روبرو رکھا ہے آئنہ
عبید رضا عباس
نعت مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جاذب ذہن و دل زیور جسم و جاں
تو وجود عیاں زینت لا مکاں
۔
تو نہیں تو کہانی میں کچھ بھی نہیں
ابتدا انتہا تو ، تو ہی درمیاں
۔
تجھ کو ڈھونڈا تو خود کا پتا مل گیا
چاہتے بھی تو ملتا نہ اپنا نشاں
۔
تیرا کردار کردار لا پائمال
تیری ہستی معزز امین و اماں
۔
سبز گنبد ہے میری نگاہوں میں یوں
رحل پر جیسے رکھا ہوا ہو قرآں
۔
ہو "اثر" کے لیے بھی عطا صبح نو
آفتاب کرم، روشنی، کہکشاں
جنت مکانی اسحاق اثر اندوری
پاکستان میں جہالت کی انتہا ہے ۔
اب دمادم پہ ہی دیکھ لیجیے 100 میں سے 85 لوگ اپنی جہالت کی فیکٹریاں لگائے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔
باقی 15 میں سے 10 ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہیں رہے 5 تو وہ چپ چاپ تماشہ بین ہیں مجھ سمیت ۔
اگر ہم لوگ باتوں میں آئیں تو فلاسفروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیں اور حقیقت میں جہالت کی نہج پر ہیں ۔
والسلام
دنیا میں چند لوگ ہیں اپنے مزاج کے
جن پر کبھی وجود کا جادو چلا نہیں
ا ا ا
عبید ، راشد ، اسحاق اثر ، ساغر نظامی ، مضطر خیرآبادی ، حضرت امیر مینائی
سودا و میر دونوں ہی استاد ہیں امیر
لیکن ہے فرق آہ میں اور واہ واہ میں
حضرت امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ
صاحبو ! ایک پرانا شعر پیش خدمت ہے ۔
بڑے یقین سے پرہیزگار کہنے لگے
تلاشنے سے گنہگار مل ہی جائیں گے
ع ر ع
اب مزاجوں سے دشمنی چھوڑو
یہ مراسم بہت پرانے ہیں
عبید رضا عباس
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain