مانا کہ میں خدائےِ سخن میر بھی نہیں لیکن اسیرِ زلفِ گرہ گیر بھی نہیں مڑ مڑ کے اب قفس کی طرف دیکھتے ہو کیوں اب تو تمھارے پاؤں میں زنجیر بھی نہیں تو چاند ہو کے خوف زدہ جگنوؤں سے ہے حلانکہ روشنی تری جاگیر بھی نہیں ہم کیوں کسی مسیح کی نبضیں ٹٹولتے مرہم ہمارے زخموں کی توقیر بھی نہیں پھر بیچنے کو آ گئے شاطر دکان دار وہ خواب جن کی اب کوئی تعبیر بھی نہیں معصوم اصغروں کا بدن چھیدتا ہے کیوں اس کربلا میں اب کوئی شبیر بھی نہیں مت میرؔ جی کے نام سے منسوب کر "اثرؔ" یہ شعر اس مزاج کی تصویر بھی نہیں خاک پائے بزرگانِ ادب جنت مکانی "اسحاق اثرؔ" اندوری
جنت مکانی استاد محترم اسحاق اثر اندوری ۔ ۔ ۔ بہہ گیا خواہشوں کے دھارے میں آدمی ہے بڑا خسارے میں چاند تاروں پہ تجربے والے کچھ خبر بھی ہے اپنے بارے میں ہو گئی گم صلاحیت اپنی اینٹ , مٹی میں اور گارے میں یہ شعور و نظر کی باتیں ہیں فرق ہے آپ میں, ہمارے میں بات ہرگز نہ کھول کر کہنا جو بھی کہنا وہ استعارے میں