ایک مدت سے کہہ رہے ہیں عبید
الجھنوں میں ہے زندگی فی الحال
عبید رضا عباس
نظم: بلا عنوان
کتاب: زندگی کلیشے ہے ۔
شاعر: افتخار حیدر
۔ ۔ ۔
سانس چلنے والی تھی
شام ڈھلنے والی تھی
غم گزرنے والا تھا
زخم بھرنے والا تھا
اشک تھمنے والے تھے
دل سنبھلنے والا تھا.......!!
سب بدلنے والا تھا
تو کہ پھر چلی آئی.....!!

ہر ابتدا کی لازمی اک انتہا بھی ہے
جو عبد مصطفٰی ہے کسی کا خدا بھی ہے
عبید رضا عباس
بد قسمتی سے لوگ وہ جیون میں آ گئے
آتی نہیں ہیں راس وفاداریاں جنھیں
ع ر ع
آج تمھاری خون خواری پہ حیرت ہے حیوانوں کو
تم تو کل تہذیب سکھانے نکلے تھے انسانوں کو
نامعلوم
کبھی تو پوچھ معانی خوشی کے ان سے بھی
غموں کا ساتھ نبھاتے ہوئے جو زندہ ہیں
عبید رضا عباس
"اب بھی کچھ اعتبار باقی ہے"
ع ر ع
شبیب بن بحرہ، وردان بن مجالد اور ان کے گرو عبدالرحمن ابن ملجم پہ لعنت بے شمار
شرم آئی نہ ابن ملجم کو
اسد اللہ پہ وار کرتے ہوئے
ع ر ع
😑😔
امام علی علیہ السلام جب بھی ابن ملجم لعین کو دیکھتے تو یہ شعر پڑھتے تھے ۔
اُرِیْدُ حَیَاتَہ وَیُرِیْدُ قَتْلِیْ ۔
مَیں تو اس کی زندگی چاہتا ہوں اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتا ہے ـ
مومنین میں سے کچھ ایسے ہیں جنھوں نے خدا سے کیا ہوا عہد پورا کر دیا ۔ ان میں وہ بھی ہیں جنھوں نے اپنی منت پوری کر دی اور وہ بھی ہیں جو انتظار کر رہے ہیں ۔ ان میں کسی طرح کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔
سورہ احزاب: آیت 23
علی نے دے دیا قربانیوں میں گھر سارا
نماز بچ گئی اسلام اطمینان میں ہے
ع ر ع
علی پہ اس لیے ارذل نے چھپ کے وار کیا،
علی کے سامنے بزدل کا کوئی کام نہیں۔
علی پہ تیغ چلائی ہے ابن ملجم نے
سنی یہ بات تو افسردہ کائنات ہوئی
ہائے ہائے
خدا کا شیر ہے مسجد میں جس پہ تیغ چلی
عادل امام نے کیا شربت اسی کو پیش
زینب کو جس لعین نے بے آسرا کیا
ع ر ع


گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ بھی "غالب" مرے اشعار میں آوے
حضرتِ غالب
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں
آنکھیں عاشق کو نہ تو اے بت رعنا دکھلا
پتلیوں کا کسی ناداں کو تماشا دکھلا
خواجہ حیدر علی آتش
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain