آنکھ کاجل سے ہو گئی محروم
دل جناب آپ کا بیزار ہے کیوں ؟
ع ر ع
اس کو بھنورے نصیب میں آئے
جو ہے حساس تتلیوں کی طرح
ع ر ع
جو صلاحتیں عبید میں ہیں
چھین سکتے نہیں جہاں والے
دو متفرق اشعار
چھان کر دشت و بیاباں دیکھے
پر کوئی تجھ سا دوسرا نہ ملا
۔۔۔
مانگتے ہیں یہی دعا ہر وقت
اب کوئی دوسرا نہ تجھ سا ملے
ع ر ع
دن کے آسیب سے بھی رکھ محفوظ
رات کے شر سے بھی حفاظت کر
مجھ کو یا رب منافقوں سے بچا
حاسدوں سے مری حفاظت کر
شاہد انجم
جنت و دوزخ تو دونوں اہرمن کی ملکیت ہیں
کس جگہ تو جائے گا ، اے ستیہ پال آنند بول
سورگ واسی ستیہ پال آنند
حقیقت سے بھلا منہ موڑنا کیا
بہت نقصان اس ضد سے ہوئے ہیں
عبید رضا عباس
میں کسی کی پوسٹ لائیک نہیں کرتا 
جیسے خواہش عبید رکھتے تھے
زندگی یوں بسر نہ ہو پائی
کسی کی نذر ہے
جنھاں دے کُولوں نہ بھل کے وی چنگی گَل نکلے
نصیب ویکھ اُو بندے وِلَا کے رَکھنڑے پئے
راء امیدؔ علی امید
طبیعی دنیا کی ارتقا چار عناصر (ہوا، پانی ، مٹی اور آگ) کے باہمی تعامل سے ہوئی
ایوان کارل وان لنے
روٹھے ہو تو مجھ پر کوئی تہمت نہ لگانا
کس کس کو بتاؤں گا، "میں ایسا تو نہیں ہوں" ۔
ترمیم کی ہے اصل شعر میں
۔
مثل سانس بسے ہو تم میں
چھوڑ پانا تمھیں آساں تو نہیں
سجل کانپوری
بعد مدت کے خطا یاد تو آئی لیکن
اب گئے وقت پہ افسوس میں رکھا کیا ہے ؟
عبید رضا عباس

زبان مادری پوچھی جو اک لڑکے سے کالج میں
تو وہ بولا نہیں مجھکو پتا کیا ہے زباں میری
اگر سچ جاننا چاہیں تو سنیے ماسٹر صاحب
زبان مادری کچھ بھی نہیں گونگی ہے ماں میری
عاصم پیرزادہ
"انتخاب"
دو چار بات ہوتی تو سہنا بھی ٹھیک تھا
اب سوچتا ہوں آپ کا کہنا بھی ٹھیک تھا
پوشاک سے ضمیر کی قیمت نہیں رہی
تیور تو زندگی کا برہنہ بھی ٹھیک تھا
شہرت کے بھاؤ تاؤ نے چونکا دیا مجھے
یوں دیکھنے کی حد میں یہ گہنا بھی ٹھیک تھا
دونوں طرف زبان کی تلوار کھنچ گئی
خاموش میرا ایسے میں رہنا بھی ٹھیک تھا
جو چھیننے کو آئی تھی بینائیاں مری
اس روشنی کا آنکھوں سے بہنا بھی ٹھیک تھا
پہچاننے میں کس لیے دھوکہ ہوا "اثر"
چشمہ تو میری آنکھوں نے پہنا بھی ٹھیک تھا
آبروئے غزل جنت مکانی حضرت "اسحاق اثر" اندوری
گفتگو تو سحر نہیں آتی
ہاں وضاحت تراش لیتے ہیں
سحر تاب رومانی
یونہی ۔۔۔
کھو چکا ہے
جو مقدر سے
بڑی مدت سے انتظار اس کا دل کیے جاتا ہے
اس کے جانے کو مانتا ہی نہیں
دل کو معلوم ہی نہیں
جانے والوں نے واپس آنا نہیں
ہچکیاں، آہیں، آنسو سب بیکار
بھول جانے کا دل کو
مشورہ دے رہا ہوں
جو گیا سوچ کر گیا ہے کچھ
اب کے آنا عبید اس کا
سمجھو ناممکنات میں شامل
دل اسے بھول اور بڑا کر دل
بھول بیٹھا ہو گا تجھے اب تک
جس کی بے سود راہ دیکھتا ہے
بڑا پاگل ہے
بے وفاؤں کی چاہ رکھتا ہے ۔
عبید رضا عباس
دل دکھی ضرور ہے پر دسمبر کا تحفہ لے لیجیے
۔
گرمی بدن پہ جون کی آنے لگی عبیدؔ
تھاما جب اس نے ہاتھ دسمبر کی رات میں
عبید رضا عباس
آج کی تاریخ ختم ہونے میں ابھی ڈیڑھ پہر باقی ہیں اور آج کا سورج تمام تر مشکل آزمائشوں کو لے کر نکلا تھا صرف میرے لیے ۔
نومبر کا آخری دن اور بارہ فروری اس سال کے نہایت منحوس دن ثابت ہوئے میرے لیے حلانکہ باقی گیارہ دس ماہ اور 28 دن بھی آسان نہ تھے اور اگلے اکتیس دنوں کا بھی کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن یہ دو دن سبق دے چکے ہیں ۔
عبید رضا عباس
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain