جو آپ کہہ رہے ہیں مجھے مسکرانے کا
آسان اس قدر نہیں صدمات بھولنا
چہرہ تغیرات سے چاہ کر نہ بچ سکا
جب بھی کسی کے روبرو رکھا ہے آئنہ
عبید رضا عباس
نعت مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
جاذب ذہن و دل زیور جسم و جاں
تو وجود عیاں زینت لا مکاں
۔
تو نہیں تو کہانی میں کچھ بھی نہیں
ابتدا انتہا تو ، تو ہی درمیاں
۔
تجھ کو ڈھونڈا تو خود کا پتا مل گیا
چاہتے بھی تو ملتا نہ اپنا نشاں
۔
تیرا کردار کردار لا پائمال
تیری ہستی معزز امین و اماں
۔
سبز گنبد ہے میری نگاہوں میں یوں
رحل پر جیسے رکھا ہوا ہو قرآں
۔
ہو "اثر" کے لیے بھی عطا صبح نو
آفتاب کرم، روشنی، کہکشاں
جنت مکانی اسحاق اثر اندوری
پاکستان میں جہالت کی انتہا ہے ۔
اب دمادم پہ ہی دیکھ لیجیے 100 میں سے 85 لوگ اپنی جہالت کی فیکٹریاں لگائے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔
باقی 15 میں سے 10 ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہیں رہے 5 تو وہ چپ چاپ تماشہ بین ہیں مجھ سمیت ۔
اگر ہم لوگ باتوں میں آئیں تو فلاسفروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیں اور حقیقت میں جہالت کی نہج پر ہیں ۔
والسلام
دنیا میں چند لوگ ہیں اپنے مزاج کے
جن پر کبھی وجود کا جادو چلا نہیں
ا ا ا
عبید ، راشد ، اسحاق اثر ، ساغر نظامی ، مضطر خیرآبادی ، حضرت امیر مینائی
سودا و میر دونوں ہی استاد ہیں امیر
لیکن ہے فرق آہ میں اور واہ واہ میں
حضرت امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ
صاحبو ! ایک پرانا شعر پیش خدمت ہے ۔
بڑے یقین سے پرہیزگار کہنے لگے
تلاشنے سے گنہگار مل ہی جائیں گے
ع ر ع
اب مزاجوں سے دشمنی چھوڑو
یہ مراسم بہت پرانے ہیں
عبید رضا عباس
گل ، شجر ، تتلی ، چاند ، ستارے ، کہکشاں
جاگتی آنکھوں میں اکثر خواب کا آنا لکھوں
ا ا ا
جس کے احسان نے گرویدہ کیا تھا دل کو
اس کا ممنون تو اسحاق اثر آج بھی ہے
ا ا ا
وہ لا شریک جو قادر ہر ایک چیز پہ ہے
بڑی توجہ سے اپنے عبید کو دیکھے
جو مجھ پہ بیت رہی ہے وہ جانتا ہے مگر
بدل نہیں رہا قسمت کی آزمائش کو
وہ لا شریک کہ جس کا
نصیب کو بدلنے پہ اختیار بھی ہے
اسی کے رحم کا مدت سے انتظار بھی ہے
وہ کن کہے تو مقدر میں جھرجھری آئے
کوئی تو سانس مجھے بھی سکون کی آئے
نہ پھر گلہ نہ شکایت نہ یہ دھائی ہو
قدم قدم پہ مددگار کبریائی ہو۔
۔
ع ر ع
مجھ سا ایک گن نہیں عبید ان میں۔
آپ جن سے مجھے ملاتے ہیں
ع ر ع
تجھ کو دولت ہمیں روٹی کی فکر
خواہش اک سی نہیں ہوتی ہیں
ع ر ع
ہم طلبگار ہیں توجہ کے
غم کی خیرات بھی سوغات ہمیں
عبید رضا عباس
ہر بڑا چھوٹا کہہ رہا ہے آج
جو وصف مجھ میں ہے کسی میں نہیں
ع ر ع
"سچ سلیقے سے بھی کہہ دیکھا ہے"
دل میں آسیب وسوسہ ہو اگر
کس نے رہنا ہے اس مکان میں پھر
عبید رضا عباس
اس کو دوری پسند ہے ہی نہیں
میں دن رات ڈھونڈتا ہوں جسے
ع ر ع
میں ہی بیزار ہو گیا ورنہ
دل بہلنے کو بہل سکتا ہے
ع ر ع
مکانِ دل کو سدا خالی تو نہیں رہنا
جو تو نہیں تو کوئی اور آ ہی جائے گا
عبیدؔ رضا عباس
شعر دیکھیے احباب
یہ ہے پابندِ خداوندِ عبید
ایک مہلت جو فرشتہ بھی نہ دے
ع ر ع
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain