زمیں پر ایڑیاں رگڑو کہ اب چشمہ کوئی پھوٹے بہت ظالم ہے دریا ہم کو پیاسا مار ڈالے گا سمندر پار کرنا عشق کا آساں نہیں شاہ من بھنور سے بچ بھی جاؤں تو کنارا مار ڈالے گا
یاد کی بانہوں میں کیوں تنہا چھوڑ دیا شاہ من تیری یاد کے ہاتھوں - سخت بےزار ہوں میں کل رات پھر انتظار میں گزار دی میں نے اب ان ُسرخ آنکھوں سے - بہت پریشان ہوں میں
میں ہنسنے والوں کے ساتھ ہنس تو رہی ہوں... مرشد مگر اداسی میرے حَلق تک بھری ہوئی ہے... اداس تھے وہ پرندے بھی جو کل شام کو لوٹے تیرے شہر سے. مرشد شاید ان کو بھی منزل نا ملی ھم بدنصیبو کی طرح