گردشِ آگہی سے فُرصت پاکر
یادِ ماضی میں کھو جاتی ہُوں
کِتنا حسِیں تھا بےفِکر بچپن
سوچتے سوچتے اُداس ہو جاتی ہُوں
*نشاطِ آرزو ، خوابِ تمّنا ، دردِ محرومی۔۔*
*محبت نے اٹھائے سب حِجاب آہستہ آہستہ
خاموش لہجوں کو یہ
مت سمجھیــــں ...
کہ اندر سے خالی ہیــــں
... ان میــــں باتوں
کی گہراٸی سمندروں سے
کہیــــں زیادہ ہوتی ہے
... بس ضبط کے عادی
ہو جاتے ہیــــــــں
ہر شام شَفق پر میں بَھٹکوں ؛ ہر رات سِتارہ ہو جاؤں
جو کنکر بن کر چُبھتا ہے ؛ وہ خواب تمہارا ہو جاؤں
میرے اَشک تمہاری آنکھوں میں اک روز کبھی رستہ پا لیں
تم ڈُوب کے مجھ میں یوں اُبھرو میں نَدی کِنارہ ہو جاؤں
بہت پہلے سنا تھا کہ محبت اجاڑ دیتی ہے
اب آٸینہ دیکھتی ہوں تو ذندہ مثال ملتی ہے
. . کِتھے تیرے باج گُزارے ہونـدِن
بس دِل نوں لارے لائی ودے آں. .
جب اذیّت ہو تو چپ ہوتی ہوں..!!
میری خاموشی کے کردار ہو تم
جب سُلگتی ہوں شعر کہتی ہوں..!!
اس اذیّت کے ذمے دار ہو تم
خاموشی طویل ہو جائے تو دستک دے کر پوچھ لیں۔۔
کوئی زندہ بھی ہے یا نہیں۔۔
اگر زندہ ہے تو سمجھ لیں آپ وہاں مر چکے ہیں۔۔
*کہاں مِرزا ،رانجھا ،قیس گئے*
*کیوں عشق کا پڑ گیا کال سائیں*
*اس مرضِ محبت میں کام آئیں*
*نادم، نا تعویذ، نا فال، سائیں*
آج بہت دن بعد سُنی ہے بارش کی آواز
آج بہت دن بعد کسی منظر نے رستہ روکا ہے
رِم جِھم کا ملبوس پہن کر یاد کسی کی آئی ہے
آج بہت دن بعد اچانک آنکھ یونہی بھر آئی ہے
ہم نے غزلوں میں تمہیں ایسے پکارا محسن
جیسے تم ہوں کوئی قسمت کا ستارا محسن
اب تو خود کو بھی نِکھارا نہیں جاتا ہم سے
وہ بھی کیا دن تھے کہ تجھ کو سنوارا محسن
مَیں شاید تُم کو یکسر بُھولنے والی ہوں
شاید، جانِ جاں شاید!
کہ اب تُم مُجھ کو پہلے سے زیادہ یاد آتے ہو
بہت فِرسودہ لگتے ہیں مجھے اب یار کے قصّے _
گُل و گلزار کی باتیں ، لب و رخسار کے قصّے _
میں اکثر اسلئے لوگوں سے جا کر خود نہیں ملتی_
وہی بے کار کی باتیں ، وہی بے کار کے قصّے !!
اب ساری دنیا اداس پاؤ گے
ہم سے توڑ دیے جو سلسلے تم نے
جب محبّت اور نفرت ایک ہی شخص سے ہو جائے
تو اسے بھولنا بہت مشکل ہو جاتا ہے
آج انسان گرے تو ہنسی آتی ہے
موبائل گرے تو جان نکل جاتی ہے
ہماری ترجیحات ہی بدل گئی ہے
روٹھنے اور منانے کا عمل رک جائے
*تو محبت کو زنگ لگ جاتا ہے
زندگی اندازوں یا وہموں پر
نہیں
بلکہ رب پر یقین کرتے
کرتے گزاریں
یقینًا آسان
اور مطمئن لگے گی
*" اور پھر جب میں تُمہاری یاد میں گھنٹوں تمہارا انتظار کرتا ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ انتظار انتظار ہی رہے گا*
*تب میں خود کو دُنیا کا مجبور ترین اِنسان تصور کرتا ہُوں
کبھی کبھی شدت سے کوئی یاد آتے ہیں
اور ہم چاہ کر بھی اسے بتا نہیں سکتے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain