دلِ امید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے
.
نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے
.
قفس کی تیلیاں رنگین کیوں ہیں
یہاں پہ سر کو پھوڑا ہے کسی نے
.
میں اِن شیشہ گروں سے پوچھتا ہوں
کہ ٹوٹا دِل بھی جوڑا ہے کسی نے
.
محبت میں مجھے برباد کر کے
لہو کا دل نچوڑا ہے کسی نے
.
دلِ امید توڑا ہے کسی نے
سہارا دے کے چھوڑا ہے کسی نے
بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں
صحرا میرا چہرہ ہے تو سمندر تیری آنکھیں
.
پھر کون بھلا دادِ تبسم انھیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تیری آنکھیں
.
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اُتر کر تیری آنکھیں
.
اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تیری آنکھیں
.
ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں
.
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں
چلا تھا ذکر زمانے کی بےوفائی کا
تو آگیا ہے تمہارا خیال ویسے ہی
قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی
جو میں زہر اگلتا ہوں نہ
اک ناگن کو منہ لگایا تھا
کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو
ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو
.
منظرِ جشنِ قتلِ عام کو میں
جھانک کر دیکھ لوں، ذرا ٹھہرو
.
مت نکلنا کہ ڈوب جاؤ گے
خوں ہے بس، خوں ہی خوں، ذرا ٹھہرو
.
صورتِ حال اپنے باہر کی
ہے ابھی تک زبوں، ذرا ٹھہرو
.
ہوتھ سے اپنے لکھ کے نام اپنا
میں تمہیں سونپ دوں، ذرا ٹھہرو
.
میرا دروازہ توڑنے والو
میں کہیں چھپ رہوں، ذرا ٹھہرو
دل ہوش سے بیگانہ بیگانے کو کیا کہئے
چپ رہنا ہی بہتر ہے دیوانے کو کیا کہئے
.
کچھ بھی تو نہیں دیکھا اور کوچ کی تیاری
یوں آنے سے کیا حاصل یوں جانے کو کیا کہئے
.
مجبور ہیں سب اپنی افتاد طبیعت سے
ہو شمع سے کیا شکوہ پروانے کو کیا کہئے
.
تجھ سے ہی مراسم ہیں تجھ سے ہی گلا ہوگا
بیگانے سے کیا لینا بیگانے کو کیا کہئے
.
مانا کہ وصیؔ شاہ سے تم کو ہیں بہت شکوے
دیوانہ ہے دیوانہ دیوانے کو کیا کہئے
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر
گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر
.
کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر
.
پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
.
جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر در
ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر
.
ایک امید سے دل بہلتا رہا
اک تمنا ستاتی رہی رات بھر
محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا
بُھلا چکے ہیں اُسے پھر سے یاد کیا کرنا
.
وہ بے وفا ہی سہی اُس پہ تہمتیں کیسی
ذرا سی بات پہ اتنا فساد کیا کرنا
.
کچھ اس لیے بھی میں پسپا ہوا ہوں مقتل سے
کہ بہرِ مالِ غنیمت جہاد کیا کرنا
.
نگاہ میں جو اُترتا ہے دل سے کیوں اُترے
دل و نگاہ میں پیدا تضاد کیا کرنا
.
میں اس لیے اُسے اب تک چھو نہ سکا "محسن"
وہ آہیٔنہ ہے اُسے سنگ زاد کیا کرنا
جو اس کے سامنے میرا یہ حال آ جائے
تو دکھ سے اور بھی اس پر جمال آ جائے
.
مرا خیال بھی گھنگرو پہن کے ناچے گا
اگر خیال کو تیرا خیال آ جائے
.
ہر ایک شام نئے خواب اس پہ کاڑھیں گے
ہمارے ہاتھ اگر تیری شال آ جائے
.
انہی دنوں وہ مرے ساتھ چائے پیتا تھا
کہیں سے کاش مرا پچھلا سال آ جائے
.
میں اپنے غم کے خزانے کہاں چھپاؤں گا
اگر کہیں سے کوئی اندمال آ جائے
.
ہر ایک بار نئے ڈھنگ سے سجائیں تجھے
ہمارے ہاتھ جو پھولوں کی ڈال آ جائے
.
یہ ڈوبتا ہوا سورج ٹھہر نہ جائے وصیؔ
اگر وہ سامنے وقت زوال آ جائے
کاش کوئی تو ایسا ہو
جو اندر سے باہر جیسا ہو
عُمر کتنی طویل لگتی ہے
باتوں باتوں میں کٹ گئی کہ نہیں
کتنے سورج نکل کے ڈوب گئے
شام ہجر تیری سحر نہ ہوئی
بری کافر طبیعت ہے
اذیت ہی اذیت ہے
موج خوشبو کی طرح بات اڑانے والے۔۔
تجھ میں پہلے تو نہ تھے رنگ زمانے والے۔۔
.
کتنے ہیرے میری آنکھوں سے چرائے تُو نے،
چند پتھر میری جھولی میں گرانے والے۔۔
.
خون بہا اگلی بہاروں کا تیرے سر تو نہیں،
خُشک ٹہنی پہ نیا پھول کھلانے والے۔۔
.
آ تجھے نظر کروں اپنی ہی شہہ رگ کا لہو،
میرے دشمن،، میری توقیر بڑھانے والے۔۔
.
آستینوں میں چھپائے ہوئے خنجر آئے،
مجھ سے یاروں کی طرح ہاتھ ملانے والے۔۔
.
ظلمتِ شب سے انہیں کیسی شکایت محسن؟
وہ تو سورج کو تھے آئینہ دکھانے والے۔
اب تک تو خیر تیری تمنّا میں کٹ گئی
تو مل گیا تو پتہ نہیں کیا کروں گا میں
مُرشّد! آپ کرتے ہوں گے مرتبے کا خیال
میں بات کرتے ہوۓ فقط بات کرتا ہوں
خبردار !
وطنِ عزیز میں کوئی چیز سستی مل رہی ہو تو فوراً حکومت کو اطلاع کریں
😁🙂☺️
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل
سحر کی آس تو ہے ،زندگی کی آس نہیں
*کسی کو جان لینا ... بھی بہت بڑا عذاب ہوتا ہے .......!!!*
💞 💞
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain