اک زمانہ ہوا اسے بچھڑے ہوئے اب بھی مگر
راہ چلتے ہوئے لوگوں میں نظر آتا ہے
مُڑ مُڑ کے اُسےدیکھنا چاہیں میری آنکھیں
کچھ دُور مجھے چھوڑنے آیا تھا جواِک شخص
دسمبر کی سرد راتوں میں اک آتش داں کے پاس
گھنٹوں تنہا بیٹھنا، بجھتے شرارے دیکھنا
جب کبھی فرصت ملے تو گوشہ تنہائی میں
یاد ماضی کے پرانے گوشوارے دیکھنا
ہمارے چہروں سے تم کو پتہ نہیں چلے گا
اداسی کم نہیں ہوتی تو پھیل جاتی ہے
میں صرف محبت کا طلب گار تھا لیکن
اِس میں تو بہت کام اضافی نکل آئے ..
عطائے درد میں وہ بھی نہیں تھا دل کا غریب فــراز
میں نے بھی بخشش میں حد نہیں مانگی
کتنے جگنو اسی خواھش میں مرے ساتھ چلے
کوئی تو راستہ تیرے گھر کو بھی جاتا ھوگا
وہ ہوا کی طرح آزاد سمجھتا ہے مجھے
اس کو میں پاؤں کی زنجیر دکھاتا ہی نہیں
بے وجہ اُداسی کا سبب
کوئی جو پوچھے،
کہہ دوں گا !
یونہی بس،
ذرا حالات وغیرہ !
یہ وحشت دل سن کر طبیبوں نے کہا،
بیزار ہے یہ دنیا سے، بیمار نہیں ہے۔
رونا تھا بہت دیر مجھے خود سے لپٹ کر
پر تُجھ سے جدا خود کو میّسر نہ ہُوا مٙیں
اِس طرح سے بکھرا کہ ترے ہاتھ نہ آیا
ٹُوٹا ہوں مگر دیکھ ! مُسخّر نہ ہُوا مٙیں
Kabhi kehtay ho umeed py duniya qayim hai to kbhi expectations always hurts..
The Open tazaad
Why this kolaveri di
تیرے جیسا کوئی ہوتا تو یقیناً ملتا
گاؤں تو گاؤں ہیں شہروں کو کھنگالا میں نے
تیز چاقو سے ترا نام لکھا بیس جگہ
تیرا غصہ بھی درختوں پہ نکالا میں نے
ازل سے بخت نے لکّھا ہُوا ہے ماتھے پر
ہماری خاک میں ہے بے حاصلی گُندھی ہُوئی
بچھڑتے وقت وہ تقسیم کر گیا موسم
بہار اس کی طرف ہے خزاں ہماری طرف
تو نہیں ہے تو وہاں میرے لیے کیا ہے بھلا
تو جہاں تھا تو مجھے دنیا دکھا کرتی تھی
آشنا دیر میں وہ طبع کی غفلت سے ہوا
اور احساس ہوا جب بڑی شدت سے ہوا
نفرتیں میں نے یونہی دل میں بٹھا رکھیں تھیں
اسکا اندازہ مجھے اسکی محبت سے ہوا
سبھی کی آنکھوں میں دیے رکھے گئے لیکن
ہماری آنکھ کے حصے میں رتجگے آئے۔۔۔۔
اِک نشانی بھی فراموش نہیں کی اس کی
ایک بھی زخم کو آرام نہیں آنے دیا
اُس نے اک دن مجھے ناکام کہا اور میں نے
خود کو اپنے بھی کسی کام نہیں آنے دیا
جس دن سے ترے ہاتھ سے چھوٹا ہے مرا ہاتھ
اس دن سے کوئی شام سہانی نہیں لکھی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain