کچھ لوگوں کا اپنا کچھ نہیں ہوتا نہ سوچ نہ کوئی ارادہ نہ کوئی منزل وہ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں بس جب کوئی کچھ بھی کرے وہ بھی وہی کرتے ہیں چاہے وہ اچھا ہو یا برا۔چھوٹے ذہین کےلوگ بس غلام ہوتے ہیں کبھی لوگوں کے کبھی دولت کے کبھی خواہشات کے کبھی عادات کے۔
یہاں زیادہ تر سیاست دانوں کو عوام سے کوئی غرض نہیں۔
سب کو اس پیسے سے غرض ہے جو عوام سے ٹیکسوں کی صورت میں قومی خزانے میں جمع ہوتا ہے یا پھر ان قرضوں سے غرض ہے جو اپنے نام پہ نکالنے کی بجائے ملک کے نام پہ لیا جاتا ہے۔
موڈی شخص آپ سے زیادہ اپنے آپ کو تکلیف دیتا ہے۔
مقدر لکھنے والے کے پاس
مقدر بدلنے کا بھی اختیار ہیں
ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﺮﻧﺎ ﻏﻠﻂ ﻧﮩﯿﮟ
ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺟُﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﭼﺎﮦ ﮐﺮﻧﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ.
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﻓﻄﺮﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺑﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ.
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﭼﺎﮦ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻭﺭ ﻏﻠﻂ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﺎ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ.
جس پریشانی کو آپ اہمیت کی غذا نہیں دیتـے وه بھوکی مر جاتی ہـے
صبر کرنا آسان نہیں ہے خود سے حالات سے اور باقی دنیا سے جنگ ہے جو خاموشی سے بنا شکوہ کیے لڑنی پڑتی ہے۔ اسی لیے تو صابر کو اللہ نے اپنا دوست بولا ہے
اگر آپ کے پاس پریشان ہونے کیلئے وقت ہے تو پھر آپ کے پاس دعا کیلئے بھی تو وقت ہے ۔
اگر آپ اپنا راز دشمن سے چھپانا چاہتے ہیں تو اپنے دوست کو کبھی مت بثانا۔
جواب دینے میں کوئی زور نہیں لگتا
لیکن اصل طاقت چپ رہنے میں لگتی ہے .
خاموشی کا مطلب ہمیشہ قبولیت نہیں ہوتا کہ ہم نے صورتحال کو قبول کرلیا ہے بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ہم ان لوگوں کو سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے ہیں جو نہیں سمجھتے۔
ہم لوگ نیک بننا نہیں صرف نیک دکھنا اور نیک کہلانا چاہتے ہیں اور یہ منافقت کا سب سے اعلٰی درجہ ہے۔
اپنے اندر مثبت رویہ پیدا کریں جو آپ کے اندر ہو گا وہی باہر نکلے گا اس لئے اپنے اندر کی اچھائی کو باہر نکلنے کا موقع دیں ۔
کیونکہ آپ اچھے ہیں اور آپ اچھائی پھیلانے کے لئے ہی بنے ہیں ۔
اگر آپ کے پاس اختیارات ہیں اگر آپ کے پاس گھمنڈ ہے تو اس سے دوسروں کا جینا حرام مت کریں یاد رکھیں آپ بھی وہی انسان ہو جس خاک سے وہ دوسرا بے بس انسان بنا ہے لوگوں کو معاف کرنا سیکھو کیونکہ معاف کر دینا ایک ایسی طاقت ہے جو کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں نہ یہ ہر انسان کو رب العالمین کی طرف سے ودیعت کی گئ ہے
کوشش کریں ایک انسان سے انسانوں والی ہی توقع رکھیں یقین کریں تعلقات بہتر رہیں گے
ہم جیتے ہی کیوں ہے
جب جانتے ہیں ایک دن مر ہی جانا ہے
اس ملک و نظام کا بیڑہ غرق اٙن پڑھ نے نہیں تعلیم یافتہ نے کیا،بچپن سے سنتے اور دیکھتے آ رہے ہیں ترقی کے لیے تعلیم بڑی ضروری ہے آج گھر گھر محلے محلے سکول و کالج کھلے ہیں مگر آج معاشرے و نظام کی حالت چالیس سال پہلے سے بدتر سے بدتر ہے کیوں؟
آج کرپشن کون کر رہا ہے آخر ہمارا نظام تعلیم پڑھے لکھے اور اٙن پڑھ میں فرق پیدا کیوں نئی کر سکا؟
آخر وہ کون سا علم تھا جس کے ہمارے پیارے آقا محمد عربیؑ نے فرمایا تھا کہ " علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک "
اٙن پڑھ جن کا ذکر پہلے کر چکا ہوں آپ کو ذلیل نہیں کرے گا مگر آپ بنک ، دفتر ، تھانہ ، کچہری جائیں وہاں ڈگری ہولڈر لوگ ہوتے ہیں فیصلہ آپ خود کریں
شعبہ زندگی کا ہر کام اٙن پڑھ کر رہا ہے یہ سسٹم یہ چلا رہے ہیں،، اِن تعلیمی اداروں اور ڈگری نے کیا دیا؟
مکان بنانے والے مستری مزدور اٙن پڑھ
کار ، بائک ٹھیک کرواتے ہیں اٙن پڑھ
گھر میں بجلی کی وائرنگ کروانی ہو یا ایک سوئچ لگوانا ہو تو اٙن پڑھ سے
مکان رنگ روغن کروانا ہو تو اٙن پڑھ
گھر کی ٹی وی ، واشنگ مشین ، استری وغیرہ ٹھیک کروانی ہو تو اٙن پڑھ
شیو ، بال کٹوانے کے لیے اٙن پڑھ
شادی بیاہ پے کھانے پکوانے ہوں تو اٙن پڑھ
کار ، کوچ ، ٹرک ، وغیرہ کا ڈرائیور اٙن پڑھ
گھر میں ہر کام کرنے والے ملازم اٙن پڑھ
فیکٹری ملز میں ورکر (مزدور) ان پڑھ
گوشت ، سبزی ، کپڑے ، جوتے وغیرہ لینے جاتے ہیں دوکاندار اٙن پڑھ
منڈی سے گائے ، بھینس ، بکرا وغیرہ لینے جاتے ہیں اُن کو پالنے و بیچنے والے اٙن پڑھ
ہوٹل سے چائے پینے جاتے ہیں اٙن پڑھ
لکھی ہوئی لِسٹ میں اکثریت انہی کی تعداد ہے جنہوں نے سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا ہوا۔
انسان بہت خود غرض ہے
پسند کرے تو برائی نہیں دیکھتا
نفرت کرے تو اچھائی نہیں دیکھتا
اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain