تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
ہتھیلیوں کی دعا پھول بن کے آئی ہو
کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو
وقت رخصت آ گیا دل پھر بھی گھبرایا نہیں
اس کو ہم کیا کھوئیں گے جس کو کبھی پایا نہیں
تیرے تحفے تو سب اچھے ہیں مگر موج بہار
اب کے میرے لیے خوشبوئے حنا آئی ہو
پلٹ کر پھر یہیں آ جائیں گے ہم
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کر کے
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا
تیر سینے میں اتارا اور ہے
مقتل وقت میں خاموش گواہی کی طرح
دل بھی کام آیا ہے گمنام سپاہی کی طرح
گلابی پاؤں مرے چمپئی بنانے کو
کسی نے صحن میں مہندی کی باڑ اگائی ہو
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا
میری چادر تو چھنی تھی شام کی تنہائی میں
بے ردائی کو مری پھر دے گیا تشہیر کون
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain