یوں پھر رہاہے کانچ کا پیکرلیے ہوئے
غافل کو یہ گمان ہے کہ پتھر نہ آئے گا۔
میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا۔
شاید تو کبھی پیاسا میری طرف لوٹ آئے فراز
آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں دریاتیری خاطر۔
کھلے تو اب بھی گلشن میں پھول ہیں لیکن
نہ میرے زخم کی صورت ، نہ تیرے لب کی طرح۔
آؤ رولیں فرازؔ دنیاکو
خوش دل نامراد ہو کچھ تو۔
ہجر کی رات بہت لمبی ہے فرازؔ
آؤ اُس کی یاد میں تھک کہ سوجائیں۔
ہم نے آغاز محبت میں ہی لُٹ گئے ہیں فرازؔ
لوگ کہتے ہیں کہ انجام بُراہوتاہے۔
چراغ جلانا تو پُرانی رسمیں ہیں فرازؔ
اب تو تیرے شہر کے لوگ انسان جلا دیتے ہیں
ٹپک پڑتے ہیںآنسو جب یاد تمہاری آتی ہے فرازؔ
یہ وہ برسات ہے جس کا کوئی موسم نہیں ہوتا
اب تو درد سہنے کی اتنی عادت ہوگئی ہے فرازؔ
جب درد نہیں ملتا تو دردہوتاہے
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلوبات کرکے دیکھتے ہیں۔
مجھ سے کہتی ہے تیرے ساتھ رہونگی فرازؔ
بہت پیار کرتی ہے مجھ سے اداسی میری۔
نیند کیا آئے گی فرازؔ
موت آئی تو سولیں گے۔
روؤں کے ہنسُو ں سمجھ نہ آئے
ہاتھوں میں ہیں پھول دل میں گھاؤ۔
چلا تھا ذکر زمانے کی بے وفائی کا
سوآگیا ہے تمہاراخیال ویسے ہی ۔
ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فرازؔ
وہ چاہتاتھامگر حوصلہ نہ تھا اس کا۔
س قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج میں نے پہلی بار اس سے بے وفائی کی۔
اس طرح غور سے مت دیکھ میرے ہاتھ کو فرازؔ
ان لکیروں میں حسرتوں کے سواکچھ بھی نہیں ۔
کبھی ملے فرصت تو ضرور بتانا فرازؔ
وہ کون سی محبت تھی جو ہم تمہیں نہ دے سکے۔
کون کس کے ساتھ مخلص ہے فرازؔ
وقت ہر شخص کی اوقات بتا دیتا ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain