دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کاہونے دے ،نہ اپنارکھے۔
وہ روز دیکھتاہے ڈوبتے ہوئے سورج کوفرازؔ
کاش میں بھی کسی شام کا منظرہوتا۔
اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں۔
اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھاہے فرازؔ
رونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی۔
محبت کرسکتے ہو تو خُداسے کروفرازؔ
مٹی کے کھلونوں سے کبھی وفانہیں ملتی۔
ذکر اس کا سہی بزم میں بیٹھے ہوفرازؔ
دردکیساہی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھنا۔
محبت ان دنوں کی بات ہے فرازؔ
جب لوگ سچے اورمکان کچے تھے
سُنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو بربادکرکے دیکھتے ہیں۔
میں شب کا بھی مجرم ہوں سحر کا بھی ہوں مجرم
یارو مجھے اس شہر کے آداب سکھادو۔
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سواس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں ۔
بندگی ہم نے چھوڑدی ہے فرازؔ
کیا کریں لوگ جب خداہوجائیں۔
میں رات ٹوٹ کے رویا تو چین سے سویا
کہ دل کا زہرمری چشم ترسے نکلاتھا۔
میں نے یہ سوچ کرتسبیح ہے توڑدی فرازؔ
کیا گن گن کرمانگوں اس سے ، جو بے حساب دیتاہے۔
اک پل میں جو برباد کر دیتے ہیں دل کی بستی کوفرازؔ
وہ لوگ دیکھنے میں اکژمعصوم ہوتے ہیں ۔
مجھ سے ہر بار نظریں چُرالیتا ہے
میں نے کاغذ پر بھی بنا کے دیکھی ہیں آنکھیں اُس کی ۔
سُنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو بربادکرکے دیکھتے ہیں۔
ضبط غم اس قدر آساں نہیں فرازؔ
آگ ہوتے ہیں وہ آنسو جو پیے جاتے ہیں
پھولوں کی نمائش میں اگر وہ بھی ہوا تو
اک بار گلابوں کو بڑی آگ لگے گی
بڑے سکون سے رخصت تو کردیا اس کو
پھر اس کے بعد محبت نے انتہا کردی
یہ جھوٹ ہے کہ محبت کسی کو برباد کرتی ہے
لوگ خود ہی برباد ہو جاتے ہیں محبت حاصل کرتے کرتے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain