سنا ہے اس جہان میں زندگی کی قحط سالی ہے
یہاں دو چار دن جینے کا اکثر ذکر ہوتا ہے
یہاں ہر چیز فانی ہے
سبھی کو موت آنی ہے
یہاں اظہار کیا کرنا
یہاں پر پیار کیا کرنا
مگر کچھ یوں بھی سنتا ہوں
کہ ایسا اک جہان ہوگا
کہ جس میں موت آنے کا
کوئی دھڑکا نہیں ہوگا
حیات جاوداں کے سب
وہاں اسباب رکھے ہیں
یہ میرا تم سے وعدہ ہے
اگر دونوں وہاں مل گئے
وہیں اقرار کر لینگے
وہیں اظہار کر لینگے
وہی پھر پیار کر لینگے....!!
میں ایک ترتیب سے لگاتا رہا ہوں اب تک سکوت اپنا
صدا کے وقفے نکال' اِس کو شروع سے سُن، ردھم بنے گا !
سفید رومال جب کبوتر نہیں بنا تو وہ شعبدہ باز
پلٹنے والوں سے کہہ رہا تھا، رکو ! خدا کی قسَم ! بنے گا۔۔
جہان بھر کی تمام آنکھیں نچوڑ کر جتنا نم بنے گا
یہ کُل مِلا کر بھی ہجر کی رات میرے گِریے سے کم بنے گا
میں دشت ہوں' یہ مغالطہ ہے' نہ شاعرانہ مبالغہ ہے
مِرے بدن پر کہیں قدم رکھ کے دیکھ ' نقشِ قدم بنے گا
ہمارا لاشہ بہاو ورنہ لحَــد مقدّس مزار ہو گی
یہ سرخ کُرتا جلاؤ ورنہ' بغاوتوں کا علَم بنے گا
تو کیوں نہ ہم پانچ سات دن تک مزید سوچیں بنانے سے قبل !
مِری چَھٹی حِس بتا رہی ہے، یہ رشتہ ٹوٹے گا، غم بنے گا
مجھ ایسے لوگوں کا ٹیڑھ پَن قدرتی ہے' سو اعتراض کیسا؟
شدید نم خاک سے جو پیکر بنے گا' یہ طے ہے' خم بنے گا
سنا ہوا ہے ۔۔۔ جہاں میں بے کار کچھ نہیں ہے' سو جی رہے ہیں
بنا ہوا ہے یقیں کہ اِس رایگانی سے کچھ اہَــم بنے گا
کہ شاہ زادے کی عادتیں دیکھ کر سبھی اِس پہ متّفق ہیں
یہ جوں ہی حاکِم بنا، محَل کا وســیع رقبہ حرم بنے گا

اتنی کیوں سکھائی جا رہی ھے زندگی
ہمیں کونسا یہاں صدیاں گزارنی ہیں۔
جاگنے کا۔عذاب سہہ۔سہہ کر،
اپنے ہی اندر سوگیا ہوں میں۔

شہروں کی محبت کسی ناگن کی طرح ہے
میں اگلی محبت کسی گاٶں میں کروں گا
شــگافِ_دل گـــواہ ہے
کوئ پیــــوست تھا یہــاں ۔۔۔
بس ایک ہی شخص کل کائنات ہو جیسے
،
نظر نہ آئے تو دن میں بھی رات ہو جیسے


پتہ نہیں، سدھر گیا کہ بگڑ گیا؟
یہ دل، اب کسی سے بحث نہیں کرتا !

"اگر دروازہ پتھر کا ہو تو دستک ریاضت ہے،،
لیکن دروازے کے پیچھے پتھر ہو تو دستک حماقت ہے۔۔۔۔


جاتے ہوئے اس کو بھی ملال نہیں تھا
میں نے بھی مڑتے ہوئے لگا لی سگریٹ۔

میں اکثر سوچتا ہوں کے میرا وجود ،میرا ہونا کس طرح رہا لوگوں کی زندگی میں؟ کیسے لوگ آئے، اور آکر کس طرح کی خوشبو چھوڑ گئے اپنی میری زندگی میں؟؟
میں بہت مایوسی کے عالم میں بھی ہنستا ہوں، دکھ،سُکھ زندگی کا حصہ رہے لیکن کبھی۔کسی کے آگے رونا نہیں رویا، آج خوش ہوں کے مایوس لوٹ کے جارہا ہوں ،یہ مایوسی اچھی ہے منافقت سے، یہ مایوسی اچھی ہے ہر اس چیز سے جو تعلقات میں یادوں میں دلوں میں دوری اور نفرت پیدا کرتی ہے،
یاروں،
زندگی میں کچھ بھی کرو مگر کسی کا دل مت دکھاوّ، کیونکہ یہاں اس دنیا میں دلوں میں کھلتے گلاب جب مرجھا جائیں تو انسانیت مٙر جاتی اور جہاں انسانیت مٙر جائے وہاں برائی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے ،
اور جہاں برائی پھیل جائے وہاں معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں، اور لوگوں کا لوگوں پر سے اعتبار ختم ہوجاتا ہے
اور دل مٙر جاتے ہیں۔
تحریر۔عین
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain