آج یہاں پر ہوا اختتام۔۔۔
چلیں جی پھر ملیں گے کبھی مگر شاید۔۔۔
روشنی کی دھار پر رکھی کہانی، اور دُکھ
آنکھ سے بہتا ہُوا خاموش پانی، اور دُکھ
میرے کمرے میں اُسی ترتیب سے رکھے ہوئے
پُھول،خط، وعدے، دلاسے، اِک جوانی، اور دُکھ
یعنی تم بھی جا رہے ہو راستے میں چھوڑ کر
زندگی کی آخری گھڑیوں میں یعنی اور دُکھ
ایک دُوجے سے بچھڑ کر عمر بھر روتے رہے
رات، صحرا، خُشک پتے،ایک رانی اور دُکھ
اب مِرے لفظوں میں وہ پہلے سی کیفیت نہیں
ڈال اب جھولی میں تیری مہربانی، اور دُکھ
رات صحرا میں کسی نے بانسری کی ہُوک پر
چھیڑ دیں روتی ہوئی یادیں پُرانی، اور دُکھ
تم اُٹھا لے جاؤ اپنے رنج و غم میثم علی
اب فقیروں کی کریں گے میزبانی اور دُکھ
میثم علی آغا


میں اُس سے مل کے اُسے دکھ سنانے والا تھا
سلام کرتے ہی جس نے کہا۔۔!! خدا حافظ۔۔!!
مانا
کے قصور ان کا نہیں،
مگر حضور۔۔۔آنکھیں؟؟؟؟

بے تحاشا باتیں، ان گنت سوال ، کیا کریں کوئی۔بولتا ہی نہیں یہاں😂
کوئی سنے۔تب نا
وہ معجزے سکوت کے ہم کو بھی عطا کر
،ہم حال دل سنائیں،
مگر
گفتگو نہ ہو،









اب کس سے کہیں اور کون سنے جو حال تمہارے بعد ہوا
اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اک خواب بہت برباد ہوا
یہ ہجر ہوا بھی دشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی
وہ نام جو میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہوا
اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
وہ اپنے گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا
اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہوا یا شاد ہوا
بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں
ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بیداد ہوا

submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain