ﺑﮯ ﺭﺧﯽ ﮐﮯ ﮔﺎﺭﮮ ﺳﮯ ، ﺑﮯ ﺩﻟﯽ ﮐﯽ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ
ﻓﺎﺻﻠﮯ ﮐﯽ ﺍﯾﻨﭩﻮﮞ ﺳﮯ ، ﺍﯾﻨﭧ ﺟﮍﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ
ﺧﺎﮎ ﺍﮌﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ
ﺧﻮﺍﺏ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﺍﮨﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﺳﮯ، ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﻮ
ﭘﻞ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﮎ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺭﻧﺠﺶ ﺳﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﮭﯿﮍ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ
ﮨﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺧﻮﺍﺏ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺧﻮﺍﺏ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﮭﯿﮍ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﺎﻧﮯﮐﯽ
ﮨﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﻭﺳﺖ ﺩﺍﺭ ﻟﮩﺠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻮﭨﯿﮟ ﺳﯽ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺍﮎ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺯﻧﺠﺶ ﺳﮯ
ﺷﮏ ﮐﯽ ﺯﺭﺩ ﭨﮩﻨﯽ ﭘﺮ ﭘﮭﻮﻝ ﺑﺪﮔﻤﺎﻧﯽ ﮐﮯ
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺑﮭﯽ
ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺳﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﻏﯿﺮ ﺑﻦ ﮐﮯ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﻮ ﺁﺳﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﺩﺷﺖ ﺑﮯ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﺧﺎﻣﺸﯽ ﮐﮯ ﻭﻗﻔﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﺎﺕ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ
ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﮯ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ
ﻟﺬﺕ ﭘﺰﯾﺮﺍﺋﯽ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ
ﭘﮭﻮﻝ ﺭﻧﮓ ﻭﻋﺪﻭﮞ ﮐﯽ
ﻣﻨﺰﻟﯿﮟ ﺳﮑﮍﺗﯽ ﮨﯿﮟ
ﺭﺍﮦ ﻣﮍﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ
جاری۔۔۔۔

سوئے دامن یوں آج چلے ہمارے آنسو
جیسے میدان سے ہاری ہوئی سپاہ چلے


موت حیران کُن پہیلی ہے
اور یہ زندگی نے کھیلی ہے،
ایک تنہائی ، دوسری دھڑکن
شاعری تیسری سہیلی ہے،
صرف دل داؤ پر لگایا تھا
آپ نے جان ساتھ لے لی ہے،
سانس ہی ان کی زعفرانی نہیں
زلف بھی عنبریں چنبیلی ہے،
مسکراؤں تو "طعنے" دیتا ہے
رنج بچپن سے یار بیلی ہے،
رہ سکوں خود، نہ بیچ سکتا ہوں
جسم، اجداد کی حویلی ہے،
ایک پہیے کی گاڑی کیا چلتی
قبر تک زندگی دھکیلی ہے،
موت کا بہترین وقت ہے یہ
سر تلے لیلیٰ کی ہتھیلی ہے،
راستہ چھوڑ پاسبانِ اِرم
"ہاویہ" دھڑکنوں کی جھیلی ہے
"قیس میں اور زندہ رہ لیتا
آسمانوں پر وہ اکیلی ہے،

سائیاں میرے بیبے سائیاں
----
سائیاں میرے تارے گم
رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم
آنکھیں گم نظارے گم
ریت میں آنسو ڈوب گے
راکھ میں ہوئے شرارے گم
سائیاں میری راتیں گم
ساون اور برساتیں گم
لب گم گشتہ باتیں گم
بینائی گم جھاتیں گم
جیون کے اس صحرا میں
سب جیتں ، سب ماتیں گم
سائیاں رشتے ٹوٹ گئے
سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے
نیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھے جو لٹے ہووّں کو لوٹ گئے۔۔۔



کبھی کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم نے زندگی میں سب سے زیادہ کیا کیا؟
تو میں بغیر رُکے کہوں گا
"انتظار".!!!!!
کبھی کسی اچھے لمحے کے ٹھہر جانے کا۔
کبھی کسی دعا کی قبولیت کا۔۔
کبھی کسی کا میری محبت میں مبتلا ہو جانے کا۔
اور کبھی
کسی بہت اپنے کے لوٹ آنے کا!!
جو گزاری نا جا سکی ہم سے ، ہم نے وہ زندگی گزاری ہے۔۔
بن تمہارے کبھی نہیں آئی، کیا میری نیند بھی تمھاری ہے۔۔
کیا کہا زندگی غنیمت ہے ؟
عشق میں خود کشی غنیمت ہے
جس طرح تم نے ہم کو رکھا ہے
اِن دِنوں موت بھی غنیمت ہے
اپنے گھر پر ہی جب کوئی نہ سنے
ایسے میں شاعری غنیمت ہے
روزِ محشر حساب کم ہوگا
اُس لیے مفلسی غنیمت ہے
دیکھے ہیں شہر کے محل ہم نے
گاوں میں جھوپڑی غنیمت ہے


یہ راتوں کا جاگنا۔۔۔۔
بہت عرصہ جاگنے کے بعد سیکھا ہے، یہ رت جگے اس پروانے کی مانند ہوتے ہیں جو کسی جلتی موم بتی کے گرد ایک عرصہ رقص کرتے ہیں، اور اس دلکش رقص کے بعد خود کو فنا کردیتے ہیں۔۔۔۔


submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain