کوئی پوچھ لے تو کہنا، میرا حال اب کہ یٌوں بے نہ کسی کی آرزو ہے، نہ کسی کا اب جنوں ہے میں کنار ِ دل پہ بیٹھا، یہی خود سے پوچھتا ہوں کہاں رہ گئے تلاطم؟ بڑی دیر سے سکوں ہے مجھے چارہ گر نہیں ہے کوئی تجھ سے بھی شکایت کوئی زخم ظاہری تھا، کوئی زخم اندروں ہے کہیں اٌوب ہی نہ جاۓ اسی روز و شب سے یزداں مجھے ڈر ہے لٹ نہ جاۓ جو متاع کن فکوں ہے تیرے ساتھ چلتا چلتا بڑی دور آ گیا ہوں بڑی دیر سے ہوں تنہا، یہ فریب یا فسوں ہے؟ نہیں نفع و سود کا ہے کوئی زیست میں کرشمہ ابھی تک زیاں، زیاں ہے ابھی تک زبوں، زبوں ہے کسی کیمیا سے ہوں گے نہ جدا یہ دو مرکب میرے خون میں جو مٹی میری خاک میں جو خوں ہے بڑی فلم دیکھ لی ہے تیرے ہجر و وصل والی میری بوریت کا قصہ میری جان جوں کا توں ہے
انا جب تک، فنا کے ہاتھ پہ بیعت نہیں کرتی، نمازِ عشق سے دل کی جبیں محروم رہتی ہے،...!!!🖤🥀 نگاہیں ایک چہرے کے سوا کچھ دیکھنا چاہیں...، تو صدیوں تک پھر آنکھوں پر، عطا کا در نہیں کُھلتا،...🥀🖤 کسی منظر کے اندر دوسرا منظر نہیں کُھلتا،... یہ وه رستہ ہے جس پر، وفا کی خاک میں جب ہجر کے آنسو اترتے ہیں،...🖤🥀 تو حرفِ بے ہنر کو درد کی سوغات ملتی ہے،... دعائے شوق کی وارفتگی کو بار یابی کی فقط اک رات ملتی ہے،...🖤🥀 مگر کس کو خبر تب تک،.. طلب ہی وصل کی معدوم ہو جائے، فنا کا اسمِ اعظم روح کو معلوم ہو جائے....!!!!🖤🥀
کب سے راھوں میں ، تیری گرد بنے بیٹھے ھیں تجھ سے ملنے کے لیے ، وقت کو ٹالے ھُوئے لوگ کہیں آنکھوں سے , چھلکنے نہیں دیتے تُجھ کو کیسے پِھرتے ھیں ، تیرے خواب سنبھالے ھُوئے لوگ دامنِ صُبح میں ، گرتے ھُوئے تاروں کی طرح جل رھے ھیں ، تیری قربت کے اُجالے ھُوئے لوگ یا تُجھے رکھتے ھیں , یا پھر تیری خواھش دل میں ایسے دنیا میں ،،،،، کہاں چاھنے والے ھُوئے لوگ