Damadam.pk
Ain_25's posts | Damadam

Ain_25's posts:

تری طلب بھی نہ آئی ہمارے حصے میں 
کسی کے بخت میں _لکھا گیا مکمل تُو!!
A  : تری طلب بھی نہ آئی ہمارے حصے میں کسی کے بخت میں _لکھا گیا مکمل تُو!! - 
Sad Poetry image
A  : انگلیوں پہ کیا گننا۔۔۔ - 
Ain_25
 

بدن کو کاٹتا ہے دکھ،
ملال نوچتے ہیں
یہ درد بھیڑیے ہیں اور کھال نوچتے ہیں

Ain_25
 

جل رھی ھیں " عدم " کے شعروں میں ،
ٹھنڈکیں عنبریں پسینوں کی . . .

Ain_25
 

جب ، آنکھ میں نیند اترُ آئے
کب وصل کا خواب نہیں ھوتا
اور ، بیداری کے عالم میں
کب ،، ہجر عذاب نہیں ھوتا
کب تیری دید کی خواہش میں __
پاگل یہ نین نہیں هوتے
کب ھم بے چین نہیں هوتے
بس ،،،،،، ھم سے ،،، بین نہیں هوتے ___
❥࿐ ໑ິຶ້ຶຶ بس ___ ھم سے ،،، بینَ نہیں هوتے

Ain_25
 

ہم نے سب کچھ مختصر کر کے
دل پہ تفصیل سے لکھا ہے تمھیں

Ain_25
 

درد کی سرحد سے ــــــــ ادھر
.
یار من__!
شام ڈھلتی ھے تو
پھر رات کے تاریک سفر
آ کے بندھ ــــ جاتے ہیں
پھر_ پاؤں سے گھنگرو کی طرح
رات ، تاریک ، سفر۔۔۔۔
سنگ و شیشے کے ڈگر۔۔۔
خود پہ خود بوجھ بنے
ھم کہ ــــ مجبور سفر۔۔۔۔۔۔۔
یار من۔۔۔۔۔۔۔۔چھوڑ حزر
آ کسی وقت ـــــادھر
درد کے روپ میں آ درد کچھ اور بڑھا
آـــــ کہ اک پل کو سہی بخش کچھ اور کنول
آ ــــــ میری روح میں اتر
درد کی سرحد سے ــــــــ ادھر...

Ain_25
 

یارِ من۔۔۔
.
جھیل کا سارا بہاؤ ھے فقط
۔آہ و فغاں,اشک نہاں۔درد رواں ۔
ھم اسی جھیل کنارے پہ
ملیں گے ـــــــــ تجھ کو
کسی کملائی ھوئی روندی ھوئی
گھاس کی ــــــــ کونپل جیسے
کسی ملبوس کے ماضی کا گلابی ٹکڑا ۔۔۔
وقت کے پاؤں میں
مسلے ھوئےـــــــمخمل جیسے
آ۔۔۔۔۔۔ کہ ھم کب سے تیری راہ پہ
جلتے ھیں چراغوں کی طرح
رات ڈھلتی ھے تو پھر
آس کی لو اورـــــ بھی مدھم ھو کر
آہ __ بن جاتی ھے
اور سینے میں بجھ جاتی ھے
دھوپ نیزے پہ چڑھا دیتی ھے
پیاسے من کو۔۔۔۔
(جاری ہے)

Ain_25
 

درد کی سرحد سےـــ ادھر
.
یارِ من
درد کی لذت کا پتہ تجھ کو کہاں؟
آ کسی پل تو میرے دل میں اتر
دل کی گہرائی میں رستے ھوئے
ناسور کی سرحد سے ادھر
سرد اک جھیل ھے پھولوں والی۔۔۔۔۔
پھول سارے ھیں ـــ کنول
نیل کنول درد کنول_ذرد کنول
ان پہ ھر رت کا اثر
صرف نئے رنگ میں درد۔
(جاری ہے)

Ain_25
 

غمِ دریا
لبِ صحرا
تن تنہا
محبت کا مسلسل جوگ
___ مسافر بھوگ!
پرایا دھن
پرایا من
پرایا تن
پرایا من
پرائے لوگ__مسافر بھوگ!
دل بے چین
اندھیری رین
بلکتے بین
تڑپتے نین
سلگتے سوگ_ مسافر بھوگ!
شکستہ دکھ
ترستے مکھ
ادھورے سکھ
ہزاروں دکھ
ہزاروں روگ__مسافر بھوگ!

Ain_25
 

پارٹ14
اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لیے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آرہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا، نکلوا کے پہنتا اور یوں سج کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار ’’اوپر دی گڑگڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘ کہہ دیتا۔

Ain_25
 

پارٹ13
اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کر بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا، اس لیے داڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے، جس کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہوگئی تھی۔ مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے، وہ اس کے متعلق جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔
اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لا ئے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔ مہینے میں ایک بارملاقات کے لیے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کرکے چلے جاتے تھے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہوگیا۔

Ain_25
 

پارٹ12
تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا، ’’اوپڑدی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ۔‘‘
لیکن بعد میں ’’آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘ کی جگہ ’’آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ‘‘ نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے، خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے، کیا پتہ ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب ہی ہو جائیں۔

Ain_25
 

پارٹ11
ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب وغریب الفاظ سننے میں آتے تھے۔ ’’اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانادی منگ دی دال اف دی لالٹین۔‘‘ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ پہریداروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سویا۔ لیٹا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔
ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں، مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا تھا کہ اس کا کیا خیال ہے

Ain_25
 

پارٹ10
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے، اس کوہندوستان بھیج دیا جائے گا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اس لیے کہ اس کا خیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔
یورپین وارڈ میں اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کرکے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں۔ کیا انھیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی۔

Ain_25
 

پارٹ9
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں ناکام ہو کر پاگل ہوگیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہوئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا، مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا۔ چنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کردیے۔۔۔ اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔

Ain_25
 

پارٹ 8
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا، یک لخت یہ عادت ترک کردی۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کردیا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کردیا گیا۔

چپ چاپ سہی۔۔۔
A  : چپ چاپ سہی۔۔۔ - 
Ain_25
 

یہ الگ بات ہے کہ تیری سُنی گئی.....
ورنہ خدا میرا بھی وہی تھا......

Ain_25
 

عشق کے کوہ قاف میں ہوں
عقل کے اعتکاف میں ہوں
پہلے پہل عزیز تھی دنیا
آجکل اختلاف میں ہوں