جب ، آنکھ میں نیند اترُ آئے کب وصل کا خواب نہیں ھوتا اور ، بیداری کے عالم میں کب ،، ہجر عذاب نہیں ھوتا کب تیری دید کی خواہش میں __ پاگل یہ نین نہیں هوتے کب ھم بے چین نہیں هوتے بس ،،،،،، ھم سے ،،، بین نہیں هوتے ___ ❥࿐ ໑ິຶ້ຶຶ بس ___ ھم سے ،،، بینَ نہیں هوتے
درد کی سرحد سے ــــــــ ادھر . یار من__! شام ڈھلتی ھے تو پھر رات کے تاریک سفر آ کے بندھ ــــ جاتے ہیں پھر_ پاؤں سے گھنگرو کی طرح رات ، تاریک ، سفر۔۔۔۔ سنگ و شیشے کے ڈگر۔۔۔ خود پہ خود بوجھ بنے ھم کہ ــــ مجبور سفر۔۔۔۔۔۔۔ یار من۔۔۔۔۔۔۔۔چھوڑ حزر آ کسی وقت ـــــادھر درد کے روپ میں آ درد کچھ اور بڑھا آـــــ کہ اک پل کو سہی بخش کچھ اور کنول آ ــــــ میری روح میں اتر درد کی سرحد سے ــــــــ ادھر...
یارِ من۔۔۔ . جھیل کا سارا بہاؤ ھے فقط ۔آہ و فغاں,اشک نہاں۔درد رواں ۔ ھم اسی جھیل کنارے پہ ملیں گے ـــــــــ تجھ کو کسی کملائی ھوئی روندی ھوئی گھاس کی ــــــــ کونپل جیسے کسی ملبوس کے ماضی کا گلابی ٹکڑا ۔۔۔ وقت کے پاؤں میں مسلے ھوئےـــــــمخمل جیسے آ۔۔۔۔۔۔ کہ ھم کب سے تیری راہ پہ جلتے ھیں چراغوں کی طرح رات ڈھلتی ھے تو پھر آس کی لو اورـــــ بھی مدھم ھو کر آہ __ بن جاتی ھے اور سینے میں بجھ جاتی ھے دھوپ نیزے پہ چڑھا دیتی ھے پیاسے من کو۔۔۔۔ (جاری ہے)
درد کی سرحد سےـــ ادھر . یارِ من درد کی لذت کا پتہ تجھ کو کہاں؟ آ کسی پل تو میرے دل میں اتر دل کی گہرائی میں رستے ھوئے ناسور کی سرحد سے ادھر سرد اک جھیل ھے پھولوں والی۔۔۔۔۔ پھول سارے ھیں ـــ کنول نیل کنول درد کنول_ذرد کنول ان پہ ھر رت کا اثر صرف نئے رنگ میں درد۔ (جاری ہے)
پارٹ14 اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لیے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آرہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا، نکلوا کے پہنتا اور یوں سج کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار ’’اوپر دی گڑگڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘ کہہ دیتا۔
پارٹ13 اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کر بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا، اس لیے داڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے، جس کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہوگئی تھی۔ مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے، وہ اس کے متعلق جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لا ئے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔ مہینے میں ایک بارملاقات کے لیے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کرکے چلے جاتے تھے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہوگیا۔
پارٹ12 تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا، ’’اوپڑدی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ۔‘‘ لیکن بعد میں ’’آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘ کی جگہ ’’آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ‘‘ نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے، خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے، کیا پتہ ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب ہی ہو جائیں۔
پارٹ11 ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب وغریب الفاظ سننے میں آتے تھے۔ ’’اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانادی منگ دی دال اف دی لالٹین۔‘‘ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ پہریداروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سویا۔ لیٹا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔ ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں، مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا تھا کہ اس کا کیا خیال ہے
پارٹ10 جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے، اس کوہندوستان بھیج دیا جائے گا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اس لیے کہ اس کا خیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔ یورپین وارڈ میں اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کرکے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں۔ کیا انھیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی۔
پارٹ9 لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں ناکام ہو کر پاگل ہوگیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہوئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا، مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا۔ چنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کردیے۔۔۔ اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔
پارٹ 8 چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا، یک لخت یہ عادت ترک کردی۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کردیا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کردیا گیا۔