کِتنی مخلوُق ہے، ہنگامے ہیں، آوازیں ہیں
پھر بھی احساس کی اِک سطح پہ ہولے ہولے
کیسے چُپ چاپ برستا ہے تصوّر تیرا ۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤
پارٹ 7
۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تووہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا، ’’میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔۔۔ میں اس درخت پر ہی رہوں گا۔‘‘
بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑکر ہندوستان چلے جائیں گے۔
ایک ایم۔ ایس۔ سی۔ پاس ریڈیو انجنیئر میں، جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ، باغ کی ایک خاص روش پر، سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا، یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کردیے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کردیا۔
پارٹ 6
یہ کہاں ہے، اس کا محل وقوع کیا ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا، اس مخصمے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔۔۔ اگرہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے! اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ عرصے پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے!
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہوگیا۔ جھاڑو دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنی پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔
پارٹ5
بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر، پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے وہ بھی خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی ان پڑھ اور جاہل تھے۔ ان کی گفتگوؤں سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کرسکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کو قائداعظم کہتے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے
پارٹ4.
اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا، ’’سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا رہا ہے۔۔۔ ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی۔‘‘
دوسرا مسکرایا، ’’مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے۔۔۔ ہندوستانی بڑے شیطانی، اکڑ اکڑ پھرتے ہیں۔‘‘
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بے ہوش ہوگیا۔
پارٹ 3.
ادھر کا معلوم نہیں، لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’زمیندار‘ پڑھتا تھا، اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا، ’’مولبی ساب! یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟‘‘ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا، ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔‘‘ یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہوگیا۔
یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو، سکھ جا چکے تھے اسی لیے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جتنے ہندو، سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دیے گئے۔
ادھر کا معلوم نہیں، لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’زمیندار‘ پڑھتا تھا، اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا، ’’مولبی ساب! یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟‘‘ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا، ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔‘‘ یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہوگیا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ، سعادت حسن منٹو
بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ، پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں ہندوستان کے حوالے کردیا جائے۔
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لیے مقرر ہوگیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے، وہیں رہنے دیے گئے تھے۔ جو باقی تھے، ان کو سرحد پر روانہ کردیا گیا۔
جاری۔۔۔
درود ، پڑھ کے تُو میری جبیں پہ بوسہ دے
ناجانے پھر کس نظرِ بد میں آ گیا ہوں میں
اپنے اکیلے پن کا میں کس سے گلا کروں
جس کو بھی مڑ کے دیکھا وہ تنہائیوں میں ہے
سینے میں بھر رہا ہے غبارِ شکستِ دل
مجھ کو گلے لگاؤ، مری سانس بند ہے!
تاثرات نمایاں ہیں سب کے چہروں سے۔
کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا۔
سڑکوں پہ رات کاٹ لی گھر تو نہیں گئے
تیرے بغیر دیکھ لے مر تو نہیں گئے
یہ کیا تمہارے چہرے کی رنگت بدل گئی
خوش باش ہم کو دیکھ کر ڈر تو نہیں گئے ؟
ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کـریں،
وہ سامنے ہیں مگر تشنگی نہیں جاتی
یہ کیا ستم ہے کہ دریا سراب جیسا ہے
جاگا ہوا ہے دل میں کوئی درد بے کراں
لوری سنا رہی ہوں مگر سو نہیں رہا
سوچو ذرا یہ کتنی اذیت کی بات ہے
ہم مر رہے ہیں اور کوئی رو نہیں رہا...
ہاں میں آجکل پریشان ہوں بہت
ہاں مجھے دعاوں کی بہت ضروت ہے
محبت__ آخـــری داؤ تــھا اُس کـــا
اور مــــــیں ۔۔۔۔ جیت ســے اُکـــتا گیـــا تــھا
یاررر۔۔۔محبوب
تجھے نا بڑا مقام دے رکھا ہے دل نے، تُو مرشدِ دل و جان رہا ازل سے ابد تک، ساری منزلیں راستے ہر قدم تیری جانب رہا میرا، لیکن شاید کے اب کے برس ھوائیں کچھ الگ جانب چل پڑیں، شاید کے ہمارا سفر اب تمام ھونے کو ہے مگر میں کہنا چاہتا ہوں مجھے انتظار رہے گا کے جب کبھی فرصت ملے تجھے تو لوٹ آنا مجھے یہیں اسی مقام پہ منتظر پاوّ گے اپنا۔۔۔۔
فقط۔اسرار۔
ازقلم۔ عین
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain