پڑے ہیں دیکھنے کیا کربِ آشکار کے دن زوالِ عمر کے دن، ٹُوٹتے خمار کے دن بنامِ کم نظراں، لطفِ لمحۂ گزراں ہمارے نام نئی رُت کے انتظار کے دن بدن سے گردِ شرافت نہ جھاڑ دیں ہم بھی لپک کے چھین نہ لیں ہم بھی کچھ نکھار کے دن طویل ہوں بھی تو آخر کو مختصر ٹھہریں چمن پہ رنگ پہ، خوشبو پہ اختیار کے دن نئے دنوں میں وہ پہلا سا رس نہیں شاید کہ یاد آنے لگے ہیں گئی بہار کے دن فلک کی اوس سے ہوں گے نم آشنا کیسے زمین پر جو دھوئیں کے ہیں اور غبار کے دن یہ وقت بٹنے لگا ناپ تول میں کیونکر یہ کس طرح کے ہیں ماجدؔ گِنَت شُمار کے دن ماجد صدیقی
ُتُم ! میرے وجود میں سکون کے قیام کا موجب اور لبوں سے پھوٹتی ہنسی کا ذریعہ ہو .... تمہیں اک نظر دیکھ لینے سے نگاہیں دھنک رنگ کہکشاؤں کے راستے پر چل نکلتی ہیں اور تمہاری اک نظرِ تغافل ..... میری آنکھ میں سمٹے کاجل کے پھیلاؤ کا موجب ہے! ❤
جاگتے جاگتے تھک جاؤ تو ، ایسا کرنا آدھی راتیں مجھ کو دینا تم کو پورے خواب ملیں گے تم کیا جانو درد حدوں کو چھو آئے تو آنکھ میں آنسو جم جاتے ھیں تم چاھو تو ایسا کرنا درد کی شدت میں سہ لوں گا درد کا حاصل تم رکھ لینا تم کیا جانو ذات ادھوری ھو جائے تو رشتہ آدھا رہ جاتا ھے آدھارشتہ مجھ کو دے کر پوری ہستی لے سکتے ھو ۔ ۔ ۔
منتظر ہر ڈگر تمہارا ہوں کیسا میں ہم سفر تمہارا ہوں مجھ سے پوچھا مرا تعارف جو کہہ دیا مختصر تمہارا ہوں خود جو ٹوٹا تجھے بنانے میں میں وہی کوزہ گر تمہارا ہوں ہو سکے تم نہ میرے پل کے لئے اور میں عمر بھر تمہارا ہوں سایہ میرا تو میرے بس میں نہیں پر ہے وعدہ شجر تمہارا ہوں ہم کو منظور ہر قیامت ہے وہ جو کہہ دے اگر تمہارا ہوں روک رکھّا ہے ایک صحرا نے ضد کرے میں ہی گھر تمہارا ہوں تم تو دنیا کے ہو گئے ابرک اور میں بے خبر تمہارا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔اتباف ابرک