دن رات خود کو ستایا جاۓ بے سبب بلا وجہ رلایا جاۓ چھلکیں آنکھوں سے آنسؤں بے شمار ہر خط جو اس کا جلایا جاۓ وہ تڑپے دیکھ کر حالت ہماری عرفان حلیہ اپنا کچھ اسطرح کا بنایا جاۓ عرفان
۔۔۔۔غزل۔۔۔ ہاتھوں سے اپنے بناؤں تصویر تیری میں دنیا سے چھپاؤں تصویر تیری تیری آنکھوں سے چھلکے پیار میرے لیۓ میں سینے سے اپنے لگاؤں تصویر تیری تنہائ و ہجر میں میرا ساتھ دیتی ہے میں کیسے بھول جاؤں تصویر تیری عرفان
غزل ہر کوئ بدنام ہے شہر میں سلسلہ یہ عام ہے شہر میں ہر سو پھیلی ہے تباہی غم بھری شام ہے شہر میں کوئ اس دہلیز پہ رو رہا ہے تو کوئ اس ہر عاشق ناکام ہے شہر میں کہیں خون دل بہایا جا رہا ہے کہیں چل رہا جام ہے شہر میں کوئ بھی آۓ تو اسے زخموں سے چور کرو یہ کیسا انتظام ہے شہر میں خون دل بیچ کر بھی خوشیاں نہیں خرید پاۓ عرفان بھت مہنگے دام ہے شہر میں عرفان
Qismat ma gham likhy han Musibaty ranjo alam likhy han Ik pal bhi muskra nhi skta ma Khuda ki ksam likhy ha Logg wah wah krty han muskuraty hovy jabky apny khon sy sitam likhy han irfan