غزل
میرے پاس میرا عکس رہنے دو
مجھے اچھا لگتا ہے یہ شخص رہنے دو
میرے دل میں تنہائ ، خاموشی ہے
میری آنکھوں میں رقص رہنے دو
عرفان
کسی کو کوئ اگر خراب کرے
اور خراب بھی بے حساب کرے
عرفان
مجھ سے پوچھ لو بیشک سارے زمانے کی بات
نہیں پوچھنی تو بس جام ، میخانے کی بات
مجھے زخم پسند ہے میں زخم لکھتا ہوں
مجھ سے کبھی مت پوچھنا مسکرانے کی بات
عرفان
ان کا کہنا ہے کہ میں انہیں بدنام کر رہا ہوں
جو انکے دشمن نہ کر سکے وہ کام کر رہا ہوں
میں تو لکھتا ہوں اپنا درد شعر و غزل میں
انہیں لگتا ہے کہ میں انہیں نیلام کر رہا ہوں
عرفان
غزل
چھوڑ کر تیری گلی میں اگر جاؤنگا
دن رات روتا رہونگا بھت پچھتاؤنگا
در کی ٹھوکریں میرا نصیب بنے گی
زخم بھی یقینا میں بے شمار کھاؤنگا
زلت و رسوائ ملے گی زمانے بھر میں
پھر نہ کبھی میں دوبارہ یہاں آؤنگا
عرفان
غربت
چل رہا ہے کیسا یہ دور
غربت پھیلی ہے چارو اوور
بھوک افلاس کے ڈیرے ہیں
غم یہاں پہ بہتیرے ہیں
قسمت پہ چلے کس کا زور
غربت پھیلی ہے چارو اوور
غریب یہاں آۓ دن روتے ہیں
حکمران چین سے سوتے ہیں
مسلہ ہے یارو یہ قابل غور
غربت پھیلی ہے چارو اوور
روٹی کپڑا مکان بھوک سے مر رہا ہے
ہر انسان یہاں خودکشی کر رہا ہے
ہو رہے ہیں قتل یہاں کیسا ہے یہ شور
غربت پھیلی ہے چارو اوور
ہو رہا ہے سب کا نقصان یہاں
کوی کسی کا نہیں عرفان یہاں
عجب ہے رواج عجب ہے دور
غربت پھیلی ہے چارو اوور
میں بے گھر ایک گھر ڈھونڈ رہا ہوں
جانب منزل ہوں ہمسفر ڈھونڈ رہا ہوں
اداسیوں ، تنہائیوں کا شکار ہے میرا دل
خوشیوں بھری کوئ خبر ڈھونڈ رہا ہوں
مجھ سے اب اور نہیں سمبھالے جاتے زخم
انہیں بیچنے کیلیۓ کوئ شہر ڈھونڈ رہا ہوں
یہ تو دل کا حال ہے میرا نہیں عرفان
میں تو کب سے زہر ڈھونڈ رہا ہوں
میں یہ لمحے اب یوں گزارتا ہوں
دیواروں پہ لکھ کے تیرا نام پکارتا ہوں
روز ایک نیا چہرہ بن جاتا ہے تمہارا
روز میں تجھے سنوارتا ہوں
عرفان
مطلبی ، بے وفا ہوں مجھ سے دور رہو
میں حد سے زیادہ برا ہوں مجھ سے دور رہو
یہ الفت ، محبت پیار کچھ نہیں جانتا
دھوکے باز ہوں سب سے جدا ہوں مجھ سے دور رہو
عرفان
شب بخیر
زخموں سے جو چور ہوتے ہیں
وہ لوگ خوشیوں سے دور ہوتے ہیں
عرفان
۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔
لگے ہیں جو زخم بے حساب لکھ رہا ہوں
میں اپنی عاشقی پہ کتاب لکھ رہا ہوں
برے لوگوں کے ساتھ تھا اٹھنا بیٹھنا میرا
میں عادتیں ساری خراب لکھ رہا ہوں
اسنے کیا تھا مجھ سے بے وفائ کا سوال
میں خون سے اپنے جواب لکھ رہا ہوں
غموں سے بھر گیا ہے اب دل میرا عرفان
میں بے شمار سگرٹیں ، شراب لکھ رہا ہوں
یوں باتیں نہ بناؤ مرشد
ماجرا کیا ہے بتاؤ مرشد
وہ کیوں جدا ہوا وجہ کیا ہے
بے سبب آنسؤں نہ بہاؤ مرشد
عرفان
جب لوگوں کے دل بھر جائینگے
یقینا اس وقت ہم مر جائینگے
عرفان
شب بخیر
غزل
ایک دوسرے سے دور ہو گۓ ہم دونوں
زخموں سے چور ہو گۓ ہم دونوں
تنہائ اداسی نے آن گھیرا دونوں کو
بھت مجبور ہو گۓ ہم دونوں
نہ اسے کسی کی تمنا نہ مجھے کسی کی ضرورت
کچھ اس قدر مغرور ہو گۓ ہم دونوں
ہر شخص جانتا ہے قصہ ہمارا
یعنی بھت مشہور ہو گۓ ہم دونوں
وہ بھی عشق کے ہاتھوں مجبور ہے میں بھی
کیسا مقدر ہے مزدور ہو گۓ ہم دونوں
عرفان
ہم جب سے تیرے عشق میں گرفتار ہوۓ
ٹوٹ گۓ بے شمار الجھنوں کا شکار ہوۓ
جان سے بھی زیادہ قیمت تھی جن کی
وہ سونے کے سکے یارو بے کار ہوۓ
عرفان
۔۔۔۔غزل۔۔
جب سے ویران ہوا ہے دل
زخموں کا مہمان ہوا ہے دل
کیوں اداسی چھائ ہے چہرے پہ اس کے
کیوں اتنا پریشان ہوا ہے دل
سانسیں بھی اب کسی کام کی نہیں رہیں
کباڑ خانے کا سامان ہوا ہے دل
جب سے جدا ہوۓ ہیں ہم دونوں
ایک دوسرے کا نقصان ہوا ہے دل
غموں ، مصیبتوں کا بسیرا ہے یہاں
الجھنوں کا شکار عرفان ہوا ہے دل
سامنے آۓ جب وہ میرے دل میں ہلچل ہوتی ہے
بے قراری میں بھی یارو زندگی مکمل ہوتی ہے
عرفان
درد دل کا سنو گے سناؤں کیا
مرہم لگاؤ گے زخم دیکھاؤں کیا
کس قدر داغدار تھا وہ حسین چہرہ
داستاں یہ سن پاؤ گے بتاؤں کیا
عرفان
غزل
کوئ تو کھیل کھیلو کوئ تو تماشہ کرو
دل میرا جلاؤ سر بزم تم چراغاں کرو
دیکھو کتنا خوش رہتا ہوں میں
کوئ زخم دو مجھے کوئ حملہ کرو
زمانے میں چل رہا ہے رواج محبت
بے وفائ عام کرو جاری یہ سلسلہ کرو
تم نے سیکھا تھا آباؤاجداد سے ایک ہنر
عرفان سے دھوکہ کرو اسے رسوا کرو
شب بخیر
دل اگر میرا ہوتا
اتنا نہ اندھیرا ہوتا
خوشیاں بسیرا کرتی یہاں
غموں کا نہ کوئ ڈیرا ہوتا
توں اگر ساتھ دیتا میرا
میرا دل بھی تیرا ہوتا
عرفان
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain