شہر میں جب بھی ہوتی ہے بارش
بھت تڑپاتی ہے رلاتی ہے بارش
سبھی دیوانے گم سم سے نظر آتے ہیں
عاشقوں کو بھت ستاتی ہے بارش
عرفان
رفتہ رفتہ دل کو میرے بھاۓ گی محبت
رفتہ رفتہ میں سمبھلنے لگونگا
رفتہ رفتہ دل کی زمین آباد ہو گئ
رفتہ رفتہ میں مصیبتوں سے نلکنے لگونگا
عرفان
غیروں سے ہیں چھپاۓ زخم میں نے
بس ایک تم کو دیکھاۓ زخم میں نے
میں بھی چاہتا تو اوروں کی طرح نمائش لگاتا
مگر تیری خاطر نمائش نہیں بناۓ زخم میں نے
عرفان
شب بخیر
اس سے پہلے کہ ہم مر جائیں
مولا زخم ہمارے بھر جائیں
ہم سے نہیں دیکھا جاتا اپنوں کا دکھ
معاف کرنا اگر انہیں اداس کر جائیں
عرفان
کیسے گزرے گے دن تیرے بن کیسے کٹے گی رات او ہمدم
کیسے مسکرائینگے ہم کب بدلے گے حالات او ہمدم
ہجر کی راہوں میں اب تھک چکا ہوں میں
کب ملاقات ہو گی ہماری کب ہوگی بات او ہمدم
اب میسر نہیں ہے آنکھوں کو رونا تیرا
اب نہیں رہے آنسؤں، ہوئ ہے مات او ہمدم
عرفان
سفر آسان گزرے یا مشکل چلتے رہو
بڑی دور ہے ابھی منزل چلتے رہو
ابھی چند میل ہی تو گزرے ہیں
ابھی سفر ہے مکمل چلتے رہو
سنا ہے کہ راستہ بھت دشوار ہے
گرمی کی شدت خشک ہے ساحل چلتے رہو
عرفان
۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔
ہر زخم دل کا چھپانا پڑتا ہے
بلاوجہ بے سبب مسکرانا پڑتا ہے
یاد رکھنا فقط بہتر نہیں ہوتا
ہر عزیز کے ہاں آنا جانا پڑتا ہے
یہاں میسر نہیں سکون کسی کو
ہر اجنبی سے دل لگانا پڑتا ہے
میں نے دیکھا ہے ہر دور میں رہ کر عرفان
اپنی خوشی کیلیۓ اپنوں کا خون بہانا پڑتا ہے
اس دنیا سے ہٹ کہ تیری یاد میں کھویا میں
سارا دن بے چینی نے گھیرے رکھا بھت رویا میں
عرفان
تیر اسکی آنکھوں کے دل میں اتر گۓ
ہم بکھرنے والے نہیں تھے بکھر گۓ
عرفان
میں نے دیکھا ہے عدل اس زمانے کا بے وجہ سولی پہ لٹکا دیا جاؤنگا
ابھی دیکھ لو مجھے جی بھر کے عرفان کچھ ہی دیر میں دفنا دیا جاؤنگا
صبح و بخیر
نفرتوں کا شہر ہے پھر بھی یارو حملہ نہیں ہوتا
اب کوئ روتا نہیں اب سر راہ تماشہ نہیں ہوتا
عرفان
اب دل کو کوئ خوف نہیں اب دل ٹوٹ چکا ہے
اب نہیں روتا دن رات اب ہر یار روٹھ چکا ہے
اب نہیں مارا جاتا کوئ بھی سر راہ عرفان
ہر منزل دور ہو چکی یے ہر راستہ چھوٹ چکا ہے
۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔
ابھی باقی ہے الفت اس سے ابھی دل میرا سلامت ہے
ابھی چل رہی ہیں دھڑکنیں ابھی سلامت جسامت ہے
ابھی کہاں بدلے ہیں موسم ابھی محبت ہے چاہت ہے
ابھی نرمی ہے لہجوں میں ابھی باتوں میں الفت ہے
ابھی نہیں بھولے ہم ایک دوسرے کو
ابھی ہر ایک کو شناخت ہے
ابھی دل کو کہاں چوٹ پہنچی
ابھی کہاں ندامت ہے
ابھی خوش ہیں سارے عرفان ابھی باغوں میں رنگت ہے
غیراں نال سلاہ نہ کر
زندگی میڈی تباہ نہ کر
ایویں دل نہ توڑ میڈا
عرفان ایڈا گناہ نہ کر
بوجھ دل کا مٹائیں کیسے
ہم غمگین لوگ مسکرائیں کیسے
عرفان
اسلام علیکم
زخم اپنے تم چھپاتے ہو کیونکر
خود کو اور زخم لگاتے ہو کیونکر
وہ تو غیر ہے اس سے ہمدردی کیوں
اس کی محفل میں جاتے ہو کیونکر
ہم نے تمہیں دل سے چاہا ہے
ہم کو اتنا تڑپاتے ہو کیونکر
بڑا غرور تھا نہ تم میں کہاں گیا
اب اسکے جانے پہ آنسوں بہاتے ہو کیونکر
سب کو یہاں مقدر کے ہاتھوں شکست ہوئ
تم بھی ساحل پہ تصویریں بناتے ہو کیونکر
یہ جانتے ہوۓ بھی کہ کوئ نہیں سنے گا
عرفان غزلیں اپنی تم سناتے ہو کیونکر
صبح و بخیر
خود کو مجھ سے دور کرو گے
بے انتہا دل کو مجبور کرو گے
۔۔۔ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو لوگ حد سے زیادہ مغرور ہو جاتے ہیں
وہ لوگ رفتہ رفتہ اپنوں سے دور ہو جاتے ہیں
عرفان
بھوکا ، پیاسہ اور دربدر ہو کے
تیرے در پہ آیا بے گھر ہو کے
عرفان
دوستو سے منزل بلکل جدا رکھتا ہوں
میں سفر میں دشمن با خدا رکھتا ہوں
اب اپنوں سے کوئ تعلق نہیں رکھنا مجھے
اب اپنوں سے دور اپنا ہر ارادہ رکھتا ہوں
عرفان
زہر سے بلکل جدا مجھے پلا دو
گھول کر کوئ دوا مجھے پلا دو
اب نہیں لگتا دل میرا یہاں عرفان
تجھے تیرے محبوب کا واسطہ مجھے پلا دو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain