زندگی بھر کی کمائ ہے یہ کتاب نہ چھینو مجھ سے
آنکھیں ویران ہو جائینگی خواب نہ چھینو مجھ سے
میرا سر فخر سے بلند ہے نگاہیں ادب سے جھکی ہوئیں
اے ستم گر زمانے میرا حجاب نہ چھینو مجھ سے
یہ آخری نشانی ہے اس بے وفا کی میرے لیۓ
پس کتاب ہے ایک گلاب نہ چھینو مجھ سے
میری زبان سچ بولتی ہے میرا قلم سچ لکھتا ہے عرفان
میری سوچ لوگوں کیلیۓ ہیں جناب نہ چھینو مجھ سے
مہنگے ہیں دام یا سستے بتاؤ
میرے خوابوں کی قیمت لگاؤ
میری خواہشوں پہ بھی ایک نظر کرنا
میری نیندوں کے بارے کچھ سناؤ
میری آنکھوں میں آنسؤں کیوں ہیں
کیسے کیسے زخم ہیں جسم پہ دیکھاؤ
عرفان
جلدی لوٹنا گھر کہیں دیر نہ ہو جاۓ
ڈر لگتا ہے مجھے اندھیر نہ ہو جاۓ
میں نے چاہا ہے تمہیں سوچا ہے تمہیں
اس سے پہلے کہ ھیر پھیر نہ ہو جاۓ
عرفان
اناڑی ہے کوئ تو کوئ کھلاڑی ہے
ہاں مگر خون کی بازی جاری ہے
عرفان
بیشک دامن اپنا نوچ رکھو
صاف شفاف بڑی سوچ رکھو
جو کاٹے غلاظت نفرت نحوست کو
آستیں میں چھپا کہ کاکروچ رکھو
عرفان
خالی خالی سا گھر ہے اور میں ہوں
خوف ہے کوئ نہ ڈر ہے اور میں ہوں
میں ہوں اور میرے ساتھ بھی میں ہوں
مجھے بس اپنی فکر ہے اور میں ہوں
چالاکیاں ، نادانیاں بےوفائیاں اور تنہائیاں
کچھ ایسا بھنور ہے اور میں ہوں
ایک اداس شام کچھ پل میرا ساتھ دیتی ہے
اس کے بعد اذیت بھری سحر ہے اور میں ہوں
دل ٹوٹا ہوا آنکھیں بھی ویران بدن چھلنی ہے
عرفان کچھ ایسا میرا مقدر ہے اور میں ہوں
تیرا نام دھوکہ ہے یہ مقام دھوکہ ہے
جام پہ جام دھوکہ ہے سر شام دھوکہ ہے
میں مطلبی ، انا پرست ، دھوکے باز ہوں
میری جان یہ الزام دھوکہ ہے یہ کام دھوکہ ہے
وہی نظریں ہیں وہی لوگ ہیں وہی شہر ہے
مگر احترام دھوکہ ہے جناب کا سلام دھوکہ ہے
جدائ ، تنہائ بے انتہا اداسی ہے اور کیں ہوں
یہ در و بام دھوکہ ہے ہر پیعام دھوکہ ہے
کچھ تلخ لہجے ہیں کچھ سرسری سی باتیں ہیں
عرفان ہر پیغام دھوکہ ہے اب تو آرام دھوکہ ہے
شب بخیر
یہی شعر تیرے دل کو بھاۓ گا میں جانتا ہوں
دل ٹوٹے گا تو آنسوں بھی آۓ گا میں جانتا ہوں
خود غرض ، مطلبی دھوکے باز انا پرست ہے
اور توں کیا میرے بارے میں بتاۓ گا میں جانتا ہوں
تمہیں شعر اچھے نہیں لگتے تمہاری آنکھیں بتاتی ہیں
لیکن میری غزلیں سب کو سناۓ گا میں جانتا ہوں
عرفان
ابھی نہ اوڑھو سفید لباس ابھی انہوں نے آنا ہے
ابھی میت کو پڑے رہنے دو ابھی کیا منہ چھپانا ہے
ابھی میرے عزیزوں میرے اپنوں نے بین کرنے ہیں
ابھی گلہ کرنا ہے انہوں نے مجھ سے کہاں جانا ہے
عرفان
زخموں سے غموں سے رنجور نہ ہو جاۓ
ڈر ہے کہیں دل چور چور نہ ہو جاۓ
وہ ایک شخص جو میری سانسوں میں بسا ہے
زمانے کی ہر خوشی دی کہ دور نہ ہو جاۓ
میں ہر وعدہ ہر رسم ہر قسم نبھاؤنگا تیرے سنگ
اس سے پہلے کہ بے وفائ زمانے کا دستور نہ ہو جاۓ
یہی دعا مانگتا ہوں میں رب سے عرفان
اسے دیکھنے کیلیۓ یہ دل مجبور نہ ہو جاۓ
ایک تیرے در کے سوا مولا
جائیں تو جائیں کہاں مولا
سن لے ہماری صدا مولا
قبول ہو دل کی ہر دعا مولا
تو رحمان ہے تو رحیم ہے
معاف کر دے ہر خطا مولا
آمین
عرفان
مجرم ہیں خطاکار ہیں ہم
بخش دے مولا گنہگار ہیں ہم
ایک فقط تیرا ہی سہارا ہے
تیری رحمت کے طلبگار ہیں ہم
آمین
عرفان
صبح و بخیر
منزل جب طے کی نقشے خاکے رکھے ہم نے
چل پڑے سفر پر کئ دن فاقے رکھے ہم نے
ہم سے ہمارے بازو جدا ہو گۓ کئ کھو گۓ
قدم بھی بہت مشکل سے اٹھا کے رکھے ہم نے
عرفان
عشق محبت میں جنون سے گزر کے دیکھ تو سہی
دل کی بات کرتے ہو دل میں اتر کے دیکھ تو سہی
انا ہے تم میں غرور ہے بہت مغرور ہو تم
تیری دیوانی ہو گی دنیا زرا سدھر کر دیکھ تو سہی
کتنے خیرخواہ ہیں یہ تیرے اپنے تجھ سے
زرا ادھر کی بات ادھر کر کے دیکھ تو سہی
میں نے سنا ہے دل کو بہت سکون ملتا ہے
دو گھڑی ہی صبر کر کے دیکھ تو سہی
بہت کرتے ہو دل کی باتیں خوابوں میں عرفان
آج موقع بھی ہے دستور ادھر کر کے دیکھ تو
سہی
چوٹ ہر جگہ سے کھاۓ رو نہ پاۓ
مسکراتا ہی چلا جاۓ رو نہ پاۓ
کبھی زخموں سے چور ہو
کبھی اپنوں سے دور ہو
گیت خوشی کے غمی کے گنگناۓ رو نہ پاۓ
ایک تیرا درد دل کو کھاۓ جا رہا ہے
دیوانہ عاشق مجھے بناۓ جا رہا ہے
تیری تصویر بناۓ درد سناۓ رو نہ پاۓ
کیا لکھوں میں ٹوٹے ہوۓ دل کے بارے میں
عرفان رونا چاہے بھی تو آنسو نہ آۓ رو نہ پاۓ
عرفان
اتنا ظلم نہ کر معافی دے
سنو او ستم گر معافی دے
لاشہ پامال ہو گیا ہے میرا
کاٹ نہ میرا سر معافی دے
ایک ماں ، چھوٹ سی بچی ہے
باقی ویران ہے میرا گھر معافی دے
جتنا انعام تجھے میرے سر کا دیا جاۓگا
اس سے کئ گنا دونگا اوپر معافی دے
عرفان یہ دنیا محض عیش و عشرت ہے
آخرت کا سوچ کر کچھ فکر معافی دے
مغروری ، انا دھوکے بازی سے نکل کر سامنے آؤ
اتنے روپ جو بدلے ہیں ایک اور بدل کہ سامنے آؤ
ابھی مجھ میں تھوڑی سی ہمت باقی ہے
گر نہ جاؤں جب تک مکمل کہ سامنے آؤ
عرفان
دشت میں ایک شور ہے مارو مارو
ابھی بازو میں زور ہے مارو مارو
سب مارے گۓ ہیں یہ ایکلا ہے اب
ڈرو مت یہ کمزور ہے مارو مارو
کربلا کا ایک منظر اگر سمجھا پایا تو ۔۔۔۔۔۔
عرفان
😭😭😭
آؤ سناتا ہوں میں ایک یار کی کہانی
ہمدرد غمخوار دلبر دلبردار کی کہانی
اس طرف تھا میں اور میرا تنہا شہر
حسیں دلسوز دلکش ، اس پار کی کہانی
میرے سامنے تھا وہ مگر ڈاتھ نہیں تھا
حائل تھی دونوں کے درمیاں دیوار کی کہانی
عرفان
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain