غیر کی باتوں کا آخِر اِعتِبار آ ہی گیا میری جانِب سے تِرے دِل میں غُبار آ ہی گیا جانتا تھا کھا رہا ہے بے وفا جُھوٹی قسم سادگی دیکھو کہ پِھر بھی اِعتِبار آ ہی گیا پُوچھنے والوں سے گو مَیں نے چُھپایا دِل کا راز پھر بھی تیرا نام لب پر ایک بار آ ہی گیا تُو نہ آیا او وفا دُشمن تو کیا ہم مر گئے چند دِن تڑپا کِئے آخِر قرار آ ہی گیا جی میں تھا اے حشرؔ اُس سے اب نہ بولیں گے کبھی بے وفا جب سامنے آیا تو پیار آ ہی گیا۔۔۔!