میں اور میں۔
میں نے آئینے میں دیکھا میرا عکس تھا۔ ہو بہو مجھ جیسا۔میں اس میں محو ہو گئی اس کے حرکات و سکنات میرے جیسی تھی۔۔ میں آگے بڑھتی گئی ۔ وہ آگے بڑھتا گیا۔ میں پیچھے ہٹی وہ پیچھے ہٹ گیا۔ میں چھپ گئی۔ وہ چھپ گیا۔ یہ عجیب کھیل تھا۔ میں سوچتی کہ اصل۔ میں ۔ کون ہے۔ آئینے کے اندر یا باہر۔ ایک اصل ہے۔ دوسرا عکس ہے اور اصل عکس کا عکس ہے ۔ یہ سوچ بڑی اذیت ناک تھی۔ میں اس سے ہمکلام ہوئی۔ وہ ہمیشہ خاموش رہا اور میں ہمیشہ بولتی رہی۔ ۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا۔ تم بولتے کیوں نہیں؟. وہ مسکرایا اور چپ رہا۔ کمرے میں سناٹا تھا۔ میں نے پھر سوال کیا۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ اس نے کہا میں بولوں گا تو تم برداشت نہ کر سکو گی۔ بس اتنا سن کر ہیبت طاری ہو گئی۔ کپکپی طاری ہو گئی اور پھر معلوم نہیں کیا ہوا ۔ نہ معلوم میں آئینے میں سما گئی یا وہ آئینے
Aنoشy۔۔
ٹھیک ہی کہا کسی نے دسمبر کے بچھڑے پھر کبھی نہیں ملتے۔
اے دسمبر اب کے جاتے ہوئے مجھے بھی ساتھ لے جانا۔ ۔
Aنoشy۔
یہاں سے انسان اپنی بے بسی کی پہچان شروع کرتا ہے۔ بے بسی کے آغاز سے صبر کا آغاز ہوتا ہے۔ خوشی میں غم کا دخل۔ صحت میں بیماری کا آجانا۔۔ بنے ہوئے پروگرام کا معطل ہونا ۔ کسی اور انسان کے کسی عمل سے ہماری پر سکون زندگی میں پریشانی کا امکان پیدا ہونا۔ سب صبر کے مقامات ہیں۔ تکلیف ہمارے اعمال سے آئے یا اس کے حکم سے مقام صبر ہے۔ کیونکہ تکلیف ایک اذیت ناک کیفیت کا نام ہے۔ تکلیف جسم کی ہو ۔ بیماری کی شکل میں یا روح کی تکلیف۔ احساس مصیبت یا احساس تنہائی یا احساس محرومی کی شکل میں۔ مقام صبر ہے۔ انسان جس حالت سے نکلنا چاہے اور نکل نہ سکے ۔ وہاں صبر کرتا ہے۔ جہاں انسان کا علم ساتھ نہ دے ۔اس کی عقل ساتھ نہ دے اور اس کا عمل اس کی مدد نہ کر سکے وہاں مجبوری کا احساس اسے صبر کے دامن کا آسرا تلاش
Aنoشy۔
اس پر عجیب و غریب فرائض عائد ہوگئے ہیں۔ وہ محبت کے نام پر مصیبت میں گرفتار ہو گیا۔ لیکن اب صرف صبر ہے۔ یہی تلقین ہے کہ ہو جانے والے واقعات پر افسوس نہ کرو ۔ صبر کرو۔ صبر کا مقام اس وقت آتا ہے جب انسان کو یہ یقین آجائے کہ اس کی زندگی میں اس کے عمل اور اس کے ارادے کے ساتھ کسی اور کا عمل۔ کسی اور کا عمل کسی اور کا ارادہ بھی شامل ہے۔ اپنے حال میں دوسرے کا حال شامل دیکھ کر انسان گھبراتا ہے اور جب اسے ایک اور حقیقت کا عمل ہوتا ہے کہ اس کے ارادوں اور اس کے عمل میں اس کے خالق و مالک کا امر شامل ہے اور کبھی کبھی یہ امر ایک مشکل مقام سے گزرنے کا امر ہے۔ تو انسان سوچتا ہے کہ اگر بات اپنی ذات تک ہو تو بدل بھی سکتی ہے۔ لیکن اگر فیصلے امر مطلق کے تابع ہیں۔ تو ٹل نہیں سکتے ۔ یہاں سے انسان اپنی بے بسی کی
Aنoشy۔
اس زندگی میں۔ بس ایسی صورت میں انسان بے بس ہوتا ہے۔ صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ انسان شادی کرتا ہے۔ شادی کا معنی خوشی ہے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد انسان محسوس کرتا ہے کہ شادی کا عمل فرائض او ذمہ داریوں کی داستان ہے۔ حقوق کا قصہ ہے۔ صرف خوشی کی بات نہیں۔ اس میں رنج اور رنجشیں بھی ہیں۔ دو انسان۔ زوجین مل کر سفر کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے باعث مسرت ہونے کے وعدے اور دعوے لے کر ہم سفر بنتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ بعد ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ خوش رہنے کا تصوّر ختم ہو جاتا ہے۔ صبر کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اولاد ہونے کے بعد انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک خوبصورت رسی سے جکڑا گیا ہے۔ اس کی آزادی اور آزاد خیالی ختم ہو گئی ہے۔ اس پر عجیب و غریب فرائض
Aنoشy۔
یہ اذیت احساس کی لطافت کی نسبت سے بڑی اور کم ہوتی رہتی ہے۔ کوئی زندگی ایسی نہیں جو اپنی آرزو اور اپنے حاصل میں مکمل ہو۔ برابر ہو۔ کبھی آرزو بڑھ جاتی ہے۔ کبھی حاصل کم رہ جاتا ہے۔ صبر کا خیال ہی اس بات کی دلیل ہے کہ انسان جو چاہتا ہے وہ اسے ملا نہیں۔ انسان محنت کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے۔ مجاہدہ کرتا ہے۔ ریاضت اور عبادت کرتا ہے کہ زندگی اطمینان اور آرام سے گزرے اور مابعد حیات کے بھی خطرات نہ رہیں۔۔ لیکن زندگی عجیب ہے۔ اس میں جب کوئی مقام حاصل ہوتا ہے۔ پسندیدہ مقام۔ تب بھی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ رہ گیا ہے یا کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غیر ضروری اور غیر مناسب شے شامل ہوگئی ہے۔ اس زندگی میں
Aنoشy۔
🌿صبر۔🌿
انسان کو اس بات پر صبر کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ جو اسے پسند نہ ہو اور جس کا ہوجانا ناگزیر ہو۔ ہر وہ عمل جو برداشت کرنا پڑے صبر کے ذیل میں آتا ہے۔ نا قابلِ برداشت کوئی واقعہ نہیں ہے۔ جس کو دیکھنے والے اور پڑھنے والے ناقابل برداشت کہتے ہیں۔ سانحہ ہو یا حادثہ جس کے ساتھ پیش آ رہا ہے وہ تو اس میں سے گزر رہا ہے۔ رو کر یا خوش رہ کر۔
انسان کو صبر کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس لئے کہ یہ زندگی ہماری خواہشات کے مطابق نہیں ہوتی۔ جہاں ہماری پسند کی چیز ہمیں میسر نہ آئے وہاں صبر کام آتا ہے۔ جہاں ہمیں ناپسند واقعات اور افراد کے ساتھ گزر کرنا پڑے۔ وہا بھی صبر کام آتا ہے۔ صبر کا نام آتے ہی اذیت کا تصوّر آتا ہے۔ ناپسندیدہ زندگی قبول کرنے کی اذیت یا پسندیدہ زندگی ترک کرنے کی اذیت۔ یہ اذیت احساس کی لطافت کی نسبت۔
Aنoشy۔
جو شے چلنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ وہ ٹھہرنے سے حاصل ہو جاتی ہے
۔جو راز پیسے جمع کرنے میں نہ پایا جائے۔ وہ خرچ کرنے میں ضرور پایا جائے گا۔
جسے سونے والا دریافت نہ کر سکے۔ وہ جاگنے والا ضرور دریافت کرے گا۔
Aنoشy۔
کب رات کٹے کب ہو سحر کہہ نہیں سکتے۔
کب ہوگا دعاؤں میں اثر کہہ نہیں سکتے۔
Aنoشy۔
سفر زمین کا۔ فرمان آسماں سے ملے۔
سکوں ملے بھی تو انسان کو کہاں سے ملے۔
Aنoشy۔
کشتی ہچکولے کھا رہی ہو تو اللّٰہ کی رحمت کو پکارا جاتا ہے۔ جب کشتی کنارے لگ جائے تو اپنی قوتِ بازو کے قصیدے کہے جاتے ہیں۔ بہت کم انسان ایسے ہوتے ہیں۔ جو اپنے حاصل کو رحمت پروردگار کی عطاء سمجھتے ہیں۔
Aنoشy۔
آج کے دور کا انسان سٹیلائٹ سے پیغام وصول کرنے میں مصروف ہے۔ وہ قریب سے گزرنے والے چہرے کے پیغام کو وصول نہیں کر سکتا۔ انسان محبت کی سائنس سمجھنا چاہتا ہے اور یہ ممکن نہیں۔ زندگی صرف نیوٹن ہی نہیں۔ زندگی ملٹن بھی ہے۔ زندگی صرف حاصل ہی نہیں۔ ایثار بھی ہے۔ ہرن کا گوشت الگ حقیقت ہے۔ چشم آہو الگ ہے۔ زندگی کارخانوں کی آواز ہی نہیں۔ احساس پرواز بھی ہے۔ زندگی صرف۔۔ میں۔ ہی نہیں۔زندگی۔۔وہ۔۔ بھی ہے۔۔تو۔۔بھی ہے ۔ زندگی میں صرف مشینیں ہی نہیں۔ چہرے بھی ہیں۔ متلاشی نگاہیں بھی ۔۔ زندگی مادہ ہی نہیں۔ روح بھی ہے۔ اور سب سے بڑی بات زندگی خود ہی معراج محبت بھی ہے۔
Aنoشy۔
دراصل محبت ہی وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنی اصلی شکل باطنی شکل حقیقی شکل دیکھتا ہے۔ محبت ہی قدرت کا سب سے بڑا کرشمہ ہے۔ جس تن لاگے سو تن جانے ۔ ۔ محبت ہی کے زریعے انسان پر زندگی کے معنی منکشف ہوتے ہیں۔۔ کائنات کا حسن اسی آئینے میں نظر آتا ہے۔
آج کا انسان محبت سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ آج کا انسان ہر قدم پر ایک دوراہے سے دوچار ہے۔ مشینوں نے انسان سے محبت چھین لی ہے۔ آج کے انسان کے پاس وقت نہیں کہ وہ نکلنے اور ڈوبنے والے سورج کا منظر تک بھی دیکھ سکے۔ وہ چاندنی راتوں کے حسن سے ناآشنا ہو کر رہ گیا ہے۔ ان کا انسان دور کے سٹیلائٹ سے پیغام وصول کرنے میں مصروف ہے۔
Aنoشy۔
ہر انسان کے ساتھ محبت الگ تاثیر رکھتی ہے ۔۔ جس طرح ہر انسان کا چہرہ الگ ہے۔ مزاج الگ ۔ دل الگ ۔ پسند وناپسند الگ ۔۔ قسمت نصیب الگ۔۔ اسی طرح ہر انسان کا محبت میں رویہ الگ ۔۔ کہیں محبت کے دم سے تخت حاصل کیے جارہے ہیں۔۔ کہیں تخت چھوڑے جارہے ہیں۔۔ کہیں دولت کمائی جارہی ہے۔۔ کہیں دولت لٹائی جارہی ہے۔۔ محبت کرنے والے کبھی شہروں میں ویرانے پیدا کرتے ہیں۔۔ کبھی ویرانوں میں شہر آباد کر جاتے ہیں۔۔ دو انسانوں کی محبت یکساں نہیں ہو سکتی۔۔ اس لئے محبت کا بیان مشکل ہے۔ ۔
Aنoشy۔
در حقیقت محبت۔ آرزوئے قرب حسن کا نام ہے۔۔ ہم ہمہ وقت جس کے قریب رہنا چاہتے ہیں وہی محبوب ہے۔۔ محبوب ہر حال میں حسیں ہوتا ہے کیونکہ حسن تو دیکھنے والے کا انداز نظر ہے۔ ہم جس ذات کی بقاء کے لئے اپنی ذات کی فنا تک بھی گوارہ کرتے ہیں وہی محبوب ہے۔۔ محب کو محبوب میں کجی یا خامی نظر نہیں آتی۔ ۔ اگر نظر آئے بھی تو محسوس نہیں ہوتی۔ محسوس ہو بھی تو ناگوار نہیں گزرتی محبوب کی ہر ادا دلبری ہے ۔ یہاں تک کہ اس کا ستم بھی کرم ہے۔ اس کی وفا بھی پرلطف اور جفا بھی پرکشش۔۔۔ محبوب کی جفا کسی محب کو ترک وفا پر مجبور نہیں کرتی۔۔ دراصل وفا ہوتی ہی بے وفا کے لئے ہے۔ محبوب کی راہ میں انسان معذوری و مجبوری کا اظہار نہیں کرتا محبوب کی پسند و نا پسند محب کی پسند وناپسند بن جاتی ہے محبت کرنے والے جدائی کے علاوہ کسی اور قیامت کے قائل نہیں ہوتے ۔
Aنoشy۔۔
محبت سے آشنا ہونے والا انسان ہر طرف حسن ہی حسن دیکھتا ہے؛؛؛. اس کی زندگی نثر سے نکل کر شعر میں داخل ہوجاتی ہے۔۔ اندیشہ ہائے سودوزیاں سے نکل کر انسان جلوہ جاناں میں گم ہو جاتا ہے۔۔ اس کی تنہائی میں میلے ہوتے ہیں۔ وہ ہنستا ہے بے سبب؛۔ روتا ہے بے جواز۔۔۔ محبت کی کائنات جلوہء محبوب کے سوا کچھ نہیں۔ ۔ محبوب کا چہرہ۔ محب کے لیے کعبہ بن کے رہ جاتا ہے محبت انسان کو زمان و مکاں کی ظاہری قیود سے آزاد کر دیتی ہے۔۔ محبت میں داخل ہونے والا۔ ہر داستان الفت کو کم و بیش اپنا ہی قصہ سمجھتا ہے وہ اپنے غم کا عکس دوسروں کے افسانوں میں محسوس کرتاہے۔ ۔
Aنoشy۔
محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی؛۔ یہ عطاء ہے یہ نصیب ہے بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔ ۔زمیں کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تو وہ ہے محبت ہی ہے۔ ۔
محبت کی تعریف مشکل ہے۔۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں؛ افسانے رقم ہوئے؛ شعراء نے محبت کے قصیدے لکھے؛ ۔ مرثیے لکھے؛ ۔ محبت کی کیفیات کا ذکر ہوا؛۔ وضاحتیں ہوئیں؛. ۔ لیکن محبت کی جامع تعریف نہ ہو سکی_۔ واقعہ کچھ اور ہے۔ روایت کچھ اور۔۔۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک چہرہ جب انسان کی نظر میں آتا ہے تو اس کا انداز بدل جاتا ہے۔۔۔ کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے۔۔۔ بلکہ ظاہر اور باطن کا جہان بدل جاتا ہے۔ ۔
Aنoشy۔
🌹محبت🌹
جو ذات شکم مادر میں بچے کی صورت گری کرتی ہے۔۔وہی ذات خیال اور احساس کی صورت گر بھی ہے۔۔پیدا فرمانے والے نے چہروں کو تاثر دینے والا بنایا اور قلوب کو تاثیر قبول کرنے والا۔۔ہر چہرہ ایک رینج) Range).میں تاثر رکھتا ہے اور اس کے باہر وہ تاثیر نہیں ہوتی ۔۔ دائرہ تاثیر صدیوں اور زمانوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔۔ یہ خالق کے اپنے کام ہیں آنکھوں کو بینائی عطاء فرمانے والا نظاروں کو رعنائی عطاء فرماتا ہے۔۔ وہ خود ہی دل پیدا فرماتا ہے خود ہی دلبر پیدا فرماتا ہے اور خود ہی دلبری کا خالق ہے۔ بلکہ وہ خود ہی سردلبراں ہے۔۔
Aنoشy.
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے اک دم ہوا نہیں کرتے۔
good night.
Aنoشy
تربیت کے رنگوں میں ایسے ڈھلو
لوگ تمہیں پڑھنا چاہیں
تمہارے ساتھ رہنا چاہیں
تمہیں سننا چاہیں
تمہارے جیسا بننا چاہیں۔
Aنoشy.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain