جن کی خاطر شہر چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
کیا اس طرح بھی ملاقات نہیں ہو سکتی
کہ میں مر جاؤ اور تم میرا منہ دیکھنے آؤ
خود کو کسی کی امانت سمجھ کر
ہمیشہ وفادار رہنا بھی محبت ہے

میں نے سوچا تھا ھاتھ تھام لینگے آپ کا
مگر یہ کیا کر دیا آپ نے
جان لے لی میری
فرق تھا ہم دونوں کی محبت میں
مرشد
مجھے اس سے ہی تھی
اسے مجھ سے بھی تھی
ہنسی تو مہربان ہے مجھ پر
بس ہم ہی منہ نہیں لگاتے اسے
اتنی من مانیاں بھی اچھی نہیں ہوتی
تم صرف اپنے ہی نہیں میرے بھی ہو
آنکھیں ڈھونڈتی ہیں تمہیں
کاش دنیا میں تم ہی تم ہوتے
زخم جدائی کے دھیرے دھیرے بڑھ جاتے تو اچھا تھا
جدائی سے پہلے ہم مر جاتے تو اچھا تھا
ہم قسمت کی لکیروں سے تم کو چرا لیتے
بس تم ایک بار میرے ہونے کا دعویٰ تو کرتے
سہی کہا تھا کسی نے تنہا جینا سیکھ
محبت جتنی بھی سچی ہو ساتھ چھوڑ ہی جاتی ہے


اب جو ہچکی اۓ تو پانی پی لینا
یہ وہم چھوڑ دینا کہ ہم نے یاد کیا ہے
