بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہو گئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہو گئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سورج کی شہ پہ تنکے بھی بے باک ہو گئے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
سورج دماغ لوگ بھی ابلاغ فکر میں
زلف شب فراق کے پیچاک ہو گئے
جب بھی غریب شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
لہجے ہوائے شام کے نمناک ہو گئے
Qatil nigaho ka phndy ma jkra hua shkhs
عجیب شخص تھا کیسا مزاج رکھتا تھا
ساتھ رہ کر بھی وہ اختلاف رکھتا تھا
میں کیوں نہ داد دوں اس کے فن کی
میرے ہر سوال کا پہلے ہی جواب رکھتاتھا .....!!!!
وہ تو روشنیوں کاباسی تھا مگر ......
میری اندھیر نگری کا بڑا ھی خیال رکھتاتھا ...!!
(مادیت پرست معاشرے میں ) تعلقات ٹھیک کرنے کی بجائے مالی حالات ٹھیک کریں ۔۔۔۔ تعلقات خودبخود ٹھیک ہو جائیں گے
بھرے جہاں میں کوئی میرا یار تھا ہی نہیں
کسی نظر کو میرا انتظار تھا ہی نہیں
نہ ڈھونڈئیے میری آنکھوں میں رتجگوں کی تھکن
یہ دل کسی کے لئے بے قرار تھا ہی نہیں
سُنا رہا ہُوں محبت کی داستاں اُس کو
میری وفا پہ جسے اعتبار تھا ہی نہیں
قتیل کیسے ہواؤں سے مانگتے خوشبو
ہماری شام میں ذکرِ بہار تھا ہی نہیں
قتیل شفائی
لذت غم بڑھا دیجئے
آپ پھر مسکرا دیجئے
میرا دامن بہت صاف ہے
کوئی تہمت ہی لگا دیجئے