نامرادانِ محبت کو حقارت سے نہ دیکھ
یہ بڑے لوگ ہیں جینے کا ہنر جانتے ہیں
جِس روز وہ اپنوں کی طرح دیکھ لیں ہم کو
مر جائیں ، اسی روز یہ احسان اٹھا کر
تقویم طاہر
جِس روز وہ اپنوں کی طرح دیکھ لیں ہم کو
مر جائیں ، اسی روز یہ احسان اٹھا کر
تقویم طاہر

دل کو تھاموں کہ تری بزم میں آنسو پونچھوں
ہاتھ جب دل سے اُٹھے تو دیدۂ تر تک پہُنچے
داغ دہلوی
اسی گوشے میں ہیں سب دیر و حرم...
دل صنم ہے کہ خدا غور سے سُن
― ناصر کاظمی
کوئی گزرتی رات کے پچھلے پہر کہے...
لمحوں کو قید کیجئے ، گیسو بکھیریے
― پروین شاکر
وہ کیا کہـــــــے گا کہ یہ روز آ نکلتا ہـــے
خدا سـے شرم سی آتی ہے بات کرتے ہوئے
جواد شیخ
تجھ پہ کھل جائیں گے خود اپنے بھی اسرار کئی
تو ذرا مجھ کو بھی رکھ اپنے برابر میں کبھی
حکیم منظور
تجھ پہ کھل جائیں گے خود اپنے بھی اسرار کئی
تو ذرا مجھ کو بھی رکھ اپنے برابر میں کبھی
حکیم منظور
کھل گیا ان کی آرزو میں یہ راز
زیست اپنی نہیں پرائی ہے
شکیل بدایونی
ہم ناز اٹھانے کے منکر تو نہیں ہیں
تم بھی تو تشنگی کو سمجھو نا ہماری
خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں...
کاش تجھ کو بھی اِک جھلک دیکھوں...
عبید اللہ علیم
خیال اپنا ، مزاج اپنا ، پسند اپنی ، کمال کیا ہے...
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے...
مبارک صدیقی
وہی جو حاصلِ ہستی ہے ناصر...
اُسی کو مہرباں دیکھا نہ جاۓ
― ناصر کاظمی
جگنو کی روشنی سے بھی کیا کیا بھڑک اٹھی...
اس شہر کی فضا کہ چراغ آشنا نہ تھی
― احمد فراز
ٹوٹے ہوئے دلوں سے نہ الفت کی بات چھیڑ
ذکر مکاں اچھا نہیں کسی بے گھر کے سامنے
