پت جھڑ میں بہاروں کی فضا ڈُھونڈ رہا ھے پاگل ہے جو دُنیا میں وَفا ڈُھونڈ رہا ھے خُود اپنے ہی ہاتھوں سے وہ گھر اپنا جلا کر اَب سر کو چُھپانے کی جگہ ڈُھونڈ رہا ھے کل رات کو یہ شخص ضیا بانٹ رہا تھا کیوں دِن کے اُجالے میں دِیا ڈُھونڈ رہا ھے شاید کے ابھی اُس پہ زوال آیا ہوا ھے جُگنُو جو اندھیرے میں ضیا ڈُھونڈ رہا ھے کہتے ہیں کہ ہر جاہ پہ موجُود خُدا ھے یہ سُن کے وہ پتَّھر میں خُدا ڈُھونڈ رہا ھے اُسکو تو کبھی مُجھسے محبت ہی نہیں تھی کیوں آج وہ پھر میرا پتا ڈُھونڈ رہا ھے کِس شہرِ مُنافِق میں یہ تُم آ گۓ ساغر اِک دُوجے کی ہر شخص خطا ڈُھونڈ رہا ھے ساغر صدیقی
🍁"انتخاب"❤️🥀 میرے بے ربط خیالات میں کیا رکھا ھے میں تو پاگل ھوں میری بات میں کیا رکھا ھے باندھ رکھا ھے تیری یاد نے ماضی سے مجھے ورنہ گذرے ھوئے لمحات میں کیا رکھا ھے میری تکمیل تیری ذات سے ھی ممکن ھے تو الگ ھو تو میری ذات میں کیا رکھا ھے یہ شب و روز تیرے دم سے ھی تابندہ ھیں ورنہ ان گردش حالات میں کیا رکھا ھے عمر بھر ساتھ نبھاؤ تو کوئی بات بنے چند لمحوں کی ملاقات میں کیا رکھا ھے؟
کیسی شدت سے تجھے ھم نے سراھا ، آھا ! تیری پرچھائیں کو بھی ٹُوٹ کے چاھا، آھا ! آخری سانس کی لذت کوئی اُس سے پوچھے مرتے مرتے بھی جو بیمار کراھا ، ’’ آھا ‘‘ !! شعر کہنا ھےتو یُوں کہہ کہ تیرا دُشمن بھی دُشمنی بھول کے چِلا اُٹھے ’’ آھا ، آھا ‘‘ !!! تیری آنکھوں میں کھٹکتا ھےمیرے جیسا فقیر کیسا اعلٰی تیرا معیار ھے ، شاھا !! آھا !! کل میرےحق میں تھا اور آج مخالف ھُوا تُو کیسے بدلا ھے بیاں تُو نے ، گواھا ! آھا !! آج بھی یاد اگر آئے تو جھوم اُٹھتا ھوں ماہِ کامل تھی جبیں، نام تھا ماھا ، آھا !!
دل فسردہ اسے کیوں گلے لگا نہ لیا قریب رہ کے بھی جس نے ترا پتا نہ لیا بس ایک لمحے میں کیا کچھ گزر گئی دل پر بحال ہوتے ہوئے ہم نے اک زمانہ لیا شہزاد احمد