دوست کیا خوب وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں ،
ہر نئے موڑ پے اک زخم نیا دیتے ہیں۔
شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا
*پتہ ہے لوگوں کا دل ہم سے کیوں بھر جاتا ہے*
*کیونکہ ہم انہیں مسلسل میسر رہتے ہیں*
*کہانیاں پڑھ کر رونے والے ہم حساس لوگ*
*زندگی کی تلخیوں کو مسکرا کر جھیلتے ہیں
بے وفا اتنا احسان کردے
کم سے کم عشق کی لاج رکھ لے ،
دو قدم چل کے کاندھا تو دے ، دے
تیرے عاشق کی میت اٹھی ہے،
ضائع نہ کر اپنے الفاظ ہر کسی کے لئے
خاموش رہ کے دیکھ تجھے سمجھتا کون ہے
" ہمیں یہ وبا کُچھ نہیں کہتی
ہم تیری مُلاقات کے بیمار ہیں "
سنا ہے ہر شخص تم سے خوش ہے
کیا واقعی ہی؟ تم اتنے منافق ہو
بڑے گھر کی تھی صاحب
چھوٹے سے دل میں کیسے رہتی
گفتگو کرنے کا کچھ اُس میں ہُنر ایسا تھا
وہ میری بات کا مفہوم بدل دیتا تھا
غلطیاں نہیں کرینگے تو پتہ کیسے چلے گا
کون کون ہمارے گرنےکا انتظار کر رہا ہے
یتیمی کا مسئلہ جب سے کھڑا ہوگیا
میں بچے سے یک دم بڑا ہو گیا
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی
روح آزاد ہو ؛ مجبور تقاضا نہ رہے
ہے تمنا کہ مجھے کوئی تمنا نہ رہے
یہ رات آخری لوری ___,___ سنانے والی ہے
میں تھک چکا ہوں مجھے, نیند آنے والی ہے
ہنسی مذاق کی باتیں_, یہیں پہ ختم ہوئیں
اب اس کے بعد کہانی __,,__ رلانے والی ہے
سجدے سے نہ اُٹھے ..........دل ایسی کوئی نماز دے
مجھے عشق دے اپنی ذات کا ، اسے کُن سے نواز دے
زار زار رو کر اک راز معلوم ہوا ہے
تمہارا دھوکے بازی کا تو معمول ہوا ہے
اب کسی سے مرا حساب نہیں
میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں
نوچ پھینکے لبوں سے میں نے سوال
طاقتِ شوخئ جواب نہیں
آخری عشق میں اندیشہءِ ہجراں نہ رہے
گر کوئی شرط روا ہے تو بتا دی جائے
جب تلک اچھا لگوں ساتھ مرا دیتے رہو
یہ ضروری تو نہیں عمر گنوا دی جائے
اٹھ کے دو چار قدم اُس کو روانہ کر دے
یوں نا ہو لوٹ کر وہ آ جائے
ہم کو اپنی بھی ضرورت نہیں رہی باقی
تو اس کو رکھ کے پاس اپنے کیا کِیا جائے؟؟
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain