ماضی اٹھا کے پھینک دو کوڑے کے ڈھیر پر آنکھوں کو جس کی یاد سے وحشت ہوا کرے یہ تو نہیں کہوں گی کہ مر جائے میرے بن ہنسنے میں بس کبھی کبھی دقت ہوا کرے فوزیہ شیخ
اداس ھونا مسلے کا حل نہیں جو پسند ھے اغوا کیجیے نکاح کیجیے�
سروں سے کھینچ لیا وقت نے وفا کا لحاف وہ پردے اٹھ گئے جو تعینات رہتے تھے بچھڑ گیا ہے وہ سنگین موسموں میں کہیں وہ میرے دل پہ سدا جس کے ہاتھ رہتے تھے
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے
زیست ناشاد مگر کوئی مداوا تو نہیں ایک حسرت ہے مگر تیرے علاوہ تو نہیں محض موسم کی اداسی سے ڈرے بیٹھے ہو ایسے ہی وہم ہے مرنے کا بلاوا تو نہیں
عشق کرنا نہیں گناہ مگر روگ ہے روگ پالتے جاؤ
ہم نے کب تم سے ملاقات کا وعدہ چاہا دور رہ کر بھی تمہیں تم سے ذیادہ چاہا
دعا کیجئے میرے بھی دن بدل جائیں..!! زندگی خفا ہے کاش کہ انتقال کر جائیں..!!
صفائی دینا مجھے ___زہر لگتا ہے ...... آپ نے تعلق ختم کرنا ہے تو بسم اللّٰہ کیجئے...
Avakin life game kon kon khelta h
ہم سے بے وفائی کی انتہا کیا پوچھتے ہو🥺 🔐🔑 وہ ہم سے پیار سیکھتا رہا کسی اور کے لیے💔
لڑکیوں کے دکھ عجب ہوتے ہیں سکھ اس سے عجیب ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
مظلوموں کے دسترخوان سے زہر کھا لینا ، ظالموں کے دسترخوان سے شہد کھانے سے بہتر ہے،
لڑکا: شروع اللّٰہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ، مجھ سے دوستی کرو گی ، لڑکی: میں اللّٰہ کی پناہ مانگتی ہوں شیطان مردود سے ، جی نہیں
دنیا کا ہر انسان درد کا تجربہ رکھتا ہے مگر پھر بھی کسی کے درد کو محسوس نہیں کرتا
اس شہر خرابی میں غمِ عشق کے مارے زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
آج چھیڑو___ نہ نبھانے کی باتیں آج ھم دُکھ سے بھرے بیٹھے ھیں
کبھی تُو محیطِ حواس تھی سو نہیں رہی میں تیرے بغیر اُداس تھا سو نہیں رہا