تیری "وفا" کو ہم نے "بھلایا" کب تھا دن "جدائی" کا دل سے "مٹایا" کب تھا دل لگا کر "بھول" جانا تیری "عادت" تھی ہم نے "تیرے" سوا کسی کو "دوست" بنایا کب تھا
میں سب قدریں لٹا دیتی وہ اعتبار تو کرتا ہاں میں سب گنوا دیتی وہ پیار تو کرتا اداسی اس کی مجھے قطعا گوارہ نہ تھی میں گھائل ہو جاتی وہ وار تو کرتا میں چن چن پھول برساتی اس پر پر وہ میرے نام کوئی بہار تو کرتا انا پہ چوٹ سہنا دشوار ہے لیکن میں ہار جاتی گر وہ تکرار تو کرتا
کبھی یاد آؤں تو پوچھنا زرا اپنے خلوت شام سے کیسے عشق تھا تیری ذات سے کیسے پیار تھا تیرے نام سے ذرا یاد کرو وہ کون تھا جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا وہ جی جو اٹھا تیرے نام سے وہ جو مر مٹا تیرے نام پہ ہمیں بےرخی کا گلہ نہیں کیا یہی وفاؤں کا صلہ تھا مگر جرم ایسا کون سا تھا؟ گئے ہم دعاؤ سلام سے For bewafa
تیرے ہاتھ بناؤں پینسل سے پھر ہاتھ پہ تیرے ہاتھ رکھوں کچھ الٹا سیدھا فرض کروں کچھ الٹا سیدھا ہو جائے میں "آہ" لکھوں تو "ہائے" کرے بےچین" لکھوں "بےچین" ہو تم" پھر میں بےچین کا "ب" کاٹوں تجھے "چین" ذرا سا ہو جائے ابھی "ع" لکھوں تو سوچے مجھے پھر "ش" لکھوں تیری نیند اڑے جب "ق" لکھوں تجھے کچھ کچھ ہو میں "عشق" لکھوں اور تجھے ہو جائے