تمنا کرو موت کی موت کی دعا کرنے کی اجازت نھی مصائب سے تنگ آ کر موت کی دعا نھی کرسکتے اے اللہ مجھے موت دے دے کیونکہ مصائب تو امتحان ھیں ۔۔ لیکن تمنا کی جا سکتی ھے اگر حالات و واقعات اتنے بگڑ جائیں تو بالکل ٹھیک ھے
اسباب اور مسبب الاسباب کا توازن ھونا بھت ضروری ھے لیکن بھروسہ مسبب الاسباب پر ھونا چاھیے ایسا نہ ھو کہ اسباب پر ھی تکیہ کر لیا جائے اور مسبب الاسباب کو بھول جائیں ۔۔۔
خام خیالی زندگی بھت قمیتی ھے ھر کوئی بولتا ھے لیکن انسان کی ترجیحات کیا ھیں یہ اس بات کو گھٹا دیتی ھے کہ زندگی قیمتی ھے ۔۔۔اس لیے اپنے عمل کو ان ترجیحات پر لائیں جس پر واقع میں آپکو ایسا مستحکم اور مضبوط یقین ھو کہ ھاں زندگی قمیتی ھے ۔۔ وہ ترجیحات کیا ھونی چاھیئے یہ اپ نے خود تزکیہ کرنا ھے مگر انسان کے پیدا ھونے سے لیکر مرنے تک جو اول عمل ھے وہ سیکھنے کا ھے علم حاصل کرنے کا ھے یھی پہلی ترجیح ھر عاقل بالغ پر لازم آتی ۔۔
کسی نے پوچھا ایک آدمی مرد جو زمہ دار شخص ھو جس پر زمانے کا معاشرے کا اپنے گھر والوں کا رشتہ داروں کا دوستوں کا بار ھوتا ھے وہ کب روتا ھے تو جواب اسکا یھی ھے جب وہ عاجز ھو جاتا ھے ۔۔۔ تو ایسا آدمی جو باوقار عزت دار شخصیت اور سادہ سے اخلاق کا مالک ھو ۔۔وہ عاجز کب ھوتا ھے سادہ سا جواب ھے وہ عاجز تب ھوتا ۔۔ جب اسے حساس ھوتا کہ وہ خود کی ذات کو گنوا چکا بھول چکا ۔۔۔اور ب لوث اس جانور کی مانند خود کو ھانکے جا رھا جس کی آنکھیں تو زندہ ھیں مگر ان پر پٹی باندھ دی گئ ۔۔۔چلتے رھنے کے لیے
محبت کا قرینہ بڑے احترام کے ساتھ بات کرتے ھیں ادب کا لحاظ کرتے ھیں اور اخلاق کے دائرے میں رھتے ھیں وھی لوگ محبت کرتے ھیں جتاتے نھی ھیں یعنی کے خود محبت کرتے ھیں اور اس بات کا چرچا نھی کرتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ھوتے ھیں ان کے بتانے سے کے وہ کسی کو اپنا محبوب رکھتے ھیں ان کے محبوب پر دھبہ نہ لگے ۔۔وہ زمانے میں شرمندہ بدنام نہ ھوں کوئی آنچ نہ آئے ان کے محبوب پر بس خاموشی سے محبت کرتے ھیں۔۔ یھی اسلوب ملتا ھے ھمیں شاعروں ادیبوں کی محبتوں کی داستانوں میں مگر کچھ افسانے سچے ھوتے ھیں۔۔۔ میر تقی میر تو بڑے احباب ھیں میرے بارھویں کلاس کے اردو کے ٹیچر صفدر صاحب ان کا نام ھے اور وہ ب لوث محبت کرتے تھے ان کے محبوب کی تو شادی ھو گی مگر خود نہ کی ۔۔۔ جیسے سلمان خان بھی ایک زندہ مثال ھے
خدا کی مخلوق انسان میں سے بھت سے انسان نھی جانتے اپنے خالق کو تو بات دراصل یوں کی جاتی ھے نکتہ آغاز وھی سے ھو گا جہاں سے وجود تخلیق کیا گیا ظاھر ھے جو تخلیق ھوا ھو اسکی کیا طاقت وہ اپنے خالق کے آگے یہ سوال کرے کہ مجھے میری مرضی کے بنا کیوں تخلیق کیا گیا میرا کیا قصور جو مجھے دنیا کی کسوٹی میں بھیج دیا گیا یہ پرکھنے کے لیے آیا میں نیک ھوں یا بد خیر نیک ھونا یا بد ھونا میرے اختیار میں ھے ۔۔۔لیکن یہ اختیار مکمل تو نھی بلکہ آدھا ھے۔۔۔۔ رب سے یہ نھی پوچھا جا سکتا اس نے ایسا کیوں کیا ۔۔مگر وہ بادشاھت والا ھے ھر کسی سے پوچھ سے سکتا ۔۔۔
انتظار لفظ کتنا ھی چھوٹا ھے مگر صدیاں چھپی جاتی ھیں اس ایک لفظ میں لمحوں کی مسافت کا دورانیہ لامحدود ھوتا چلا جاتا بڑی اذیت ھے کرب میں مبتلا کردیتا یہ انتظار ایک سرد آہ سے وقف اسکا دراصل غمگین آہ میں بدل جاتا ھے یہ انتظار ھر انسان کو بوڑھا کر دیتا ھے کاش اس انتظار کا نعم البدل خدا ھوتا تو یقننا اسکی بھرپائی ھو جاتی مگر اس انتظار میں جکڑے راہ خدا سے ھٹ جاتے ۔۔۔وھی رک جاتے بھٹک جاتے میں اکثر سوچتا تھا اس انتظار کے بدلے میں انسان کو کم سے کم درد شناس خدا تو ملنا ھی چاھیے تھا موت کی ھچکی سے پہلے اسکا مداوا ھونا چاھیئے تھا زخم بھر جانے چاھیے۔ مگر پھر یہ لفظ انتظار مکمل ھو جاتا مگر یہ تو ادھورا ھے مکمل اگر ھو گا تو انتظار کی تعریف بدل جائے گی انتظار کب پورا ھوتا یہ تو اٹکا رھتا ھوتا رھتا کرنا پڑتا جھیلنا پڑتا
نیند نہ آنے کی ب شمار وجوھات ھو سکتی مگر تجسس سب پہ حاوی ھے یہ تجسس ھی تو ھے جو انسان کو مطمن نھی ھونے دیتا اور کریدتا رھتا ھے اپنی ب لگام خواھش کی تکمیل کو ۔۔مگر۔ وہ کہاں پوری ھوتیں جو کن فیکون کی چوکھٹ تک نہ پہنچی ھوں
جب تک انسان کو یہ معلوم پڑتا اسکا مسلہ جو اسنے اپنی ذات سے منسوب کر رکھا وہ اس کا خود ساختہ ھے تب تک روح اسکے جسم سے نکل رھی ھوتی اور وہ اپنی حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رھا ھوتا