خواب گاھوں سے اذان فجر ٹکراتی رھی خواب گاہوں سے اذان فجر ٹکراتی رھی دن چڑھے تک خامشی منبر پہ چلاتی رھی ایک لمحہ کی خطا پھیلی تو ساری زندگی چبھتے ذرے کانچ کے پلکوں سے چنواتی رھی کب یقیں تھا کوئی آئے گا مگر ظالم ھوا بند دروازے کو دستک دے کے کھلواتی رھی لمس حرف و صوت کی لذت سے واقف تھی مگر پہلوئے آواز میں تخئیل شرماتی رھی صورتیں ایسی کہ جن کے اک تصور سے شاہ جسم کے دریا کی اک ایک موج بل کھاتی رھی ظہیر صدیقی
جن کی زندگی غم مشکلات دکھ دردوں سے آراستہ رھتی ھے وھی لوگ زندگی جیتے ھیں لیکن جن کی زندگی میں مشکلات اور غم دکھ درد کم ھوں یا نہ ھوں وہ لوگ زندگی بسر کرتے ھیں زندگی جینے اور بسر کرنے میں بڑا فرق یہ ھے کہ اس میں آئی تکلیفیں مصیبتیں آفتیں دکھ درد غم کتنے برداشت کرنے پڑے ھیں ۔۔۔ سب کو ایک جیسے دکھ درد نھی ملتے ۔۔۔یہ انسان کے ایمان خلوص نیت اور اسکے کردار کی پختگی پر منحصر ھے ۔۔۔ سب سے زیادہ دکھ رسولوں نبیوں کو ملتے ھیں ۔۔۔ باقی ان سے کم کے حقدار ھیں
امید ھے آپ خیریت سے ھونگے ۔۔۔۔۔ اصل میں جو ضبط ھم اپنا رھے دراصل وہ ھماری ضد یا انا نھی بلکہ یہ وہ تربیت ھے جو ھماری پرورش کے ساتھ پروان چڑھی ۔۔۔ ۔۔ میں تو یہ بھڑاس نکالنے سے بھی رھا آیا کہ ھم خطا کیوں نھی کرتے ھمیں کرنی چاھیئے خطا مگر اصول جو باندھ رکھا ھے وہ توڑا نھی جا سکتا
خاک سے ربط رکھے ھوا کس لئے مُجھ کو ٹھہرائے وُہ، آشنا کس لئے اِک ھی مسلک کے باوصف اُلجھے ھیں جو درمیاں اُن کے آئے خُدا کس لئے لو ھمِیں آپ سے حق نھیں مانگے آپ کرتے ہیں محشر برپا کس لئے جب چھُپائے نہ چھپتی ہوں عریانیاں کوئی تن پر سجائے قبا کس لئے جاں چھڑکتے تھے جن پر کبھی، کچھ کہوں اُن سے ٹھہرے ھو خفا کس لئے ماجد صدیقی