کسی کا عشق، کسی کا خیال تھے ہم گئے دنوں میں بہت با کمال تھے ہم ہماری کھوج میں رہتی تھیں تِتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کا حسن و جمال تھے ہم زمیں کی گود میں سر رکھ کر سو گئے آخر تمہارے عشق میں کتنے نِڈھال تھے ہم ضرورتوں نے ہمارا ضمیر چاٹ لیا وگرنہ قائلِ رزقِ حلال تھے ہم ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دُھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لب گویا نہیں جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا کاٹتی ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں جانتی ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی غم سے پتھر ہو گٸ لیکن کبھی روٸی نہیں
سفر مشکل تھا مگر میں ارادہ کر چکی تھی اس کے انکار سے پہلے اسے میں اپنا آدھا کر چکی تھی جب عشق نے اس کا صدقہ مجھ سے ہجر میں مانگا میں اپنی زندگی دینے کا وعدہ کر چکی تھی
خط تو لکھ دوں اسے پر عنوان کہاں سے لاؤں وہ جو اس کی چاہ میں راکھ ہوئے وہ ارمان کہاں سے لاؤں فقط دل کی ترجمانی کا سلیقہ ڈھونڈتا ہوں پھر یہ سوچتا ہوں اتنے پاکیزہ پیغام کہاں سے لاؤں