خزاں کی رت میں گلاب لحجہ بنا کہ رکھنا کمال یہ ہے ہوا کی زد میں دیا جلانا جلا کہ رکھنا کمال یہ ہے زرا سی لرزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا کمال یہ ہے کسی کو۔دینا یہ مشورہ کے وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کہ رکھنا کمال یہ ہے کسی کی راہسے خداکی خاطر اٹھا کے کانٹے ہٹا کے پتھر پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا کمال یہ ہے وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی شکست کھائے لڑکھڑائے لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کہ رکھنا کمال یہ ہے