سبھی پہ اپنی اپنی آزمائشوں کا بوجھ ہے, کوئی یہاں گھروں سے اور کوئی دلوں سے دور ہے دلِ گریز پا ترے مغالطے نہیں گئے, نہ ساحلوں کے پاس ہے نہ کشتیوں سے دور ہے
زمِین اُن کو کھا گئی کہ آسماں نِگل گیا ؟ جو ہارتے کبھی نہ تھے وہ ہار کے کہاں گئے ؟ بُرا لگے نہ آپ کو تو اِک سوال پُوچھ لُوں ؟ مِرے تو خیر آپ تھے،پر آپ کے کہاں گئے ؟
ہر ملاقات پہ محسوس یہ ہوتا ہے مُجھ سے کچھ تیری نظر پُوچھ رہی ہو جیسے راہ چلتے ہوئے اکثر یہ گماں ہوتا ہے وُہ نظر چُھپ کے مجھے دیکھ رہی ہو جیسے ایک لمحے میں سمٹ آئے یہ صدیوں کا سفر زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے اس طرح پہروں تجھے سوچتا رہتا ہوں میری ہر سانس تیرے نام لکھی ہو جیسے