Damadam.pk
Daniyal@khan11's posts | Damadam

Daniyal@khan11's posts:

Daniyal@khan11
 

دیکھی ہے ایک فلم پرانی تو یوں لگا
جیسے کہ کوئی کام کیا ہے ثواب کا
شوگر نہ ہو کسی بھی مسلماں کو اے خدا
مشکل سا اک سوال ہے یہ بھی حساب کا
انورؔ مری نظر کو یہ کس کی نظر لگی
گوبھی کا پھول مجھ کو لگے ہے گلاب کا
😄😄😄😄

Daniyal@khan11
 

طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا
اب یہ بھی کوئی کام ہے لکھنا کتاب کا
کھایا ہے سیر ہو کے خیالی پلاؤ آج
پانی پھر اس کے بعد پیا ہے سراب کا

Daniyal@khan11
 

جدا ہوگی کسک دل سے نہ اس کی 
جدا ہوتے ہوئے اچھا لگا تھا
اکٹھے ہو گئے تھے پھول کتنے 
وہ چہرہ ایک باغیچہ لگا تھا
پئے جاتا تھا انورؔ آنسوؤں کو 
عجب اس شخص کو چسکا لگا تھا

Daniyal@khan11
 

مجھے خود سے بھی کھٹکا سا لگا تھا 
مرے اندر بھی اک پہرا لگا تھا
ابھی آثار سے باقی ہیں دل میں 
کبھی اس شہر میں میلہ لگا تھا

Daniyal@khan11
 

boooriat

Daniyal@khan11
 

چرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوار بدن پر 
اور دست ستم گر بھی دکھائی نہیں دیتا
آنکھیں بھی ہیں رستا بھی چراغوں کی ضیا بھی 
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا
اب اپنی زمیں چاند کے مانند ہے انورؔ 
بولیں تو کسی کو بھی سنائی نہیں دیتا

Daniyal@khan11
 

میں جرم خموشی کی صفائی نہیں دیتا 
ظالم اسے کہیے جو دہائی نہیں دیتا
کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ 
میں ورنہ تمہیں اذن رہائی نہیں دیتا

Daniyal@khan11
 

چین کا دشمن ہوا اک مسئلہ میری طرف 
اس نے کل دیکھا تھا کیوں اور آج کیوں دیکھا نہیں 
اب جہاں لے جائے مجھ کو جلتی بجھتی آرزو 
میں بھی اس جگنو کا پیچھا چھوڑنے والا نہیں 
کیسی کیسی پرسشیں انورؔ رلاتی ہیں مجھے 
کھیتیوں سے کیا کہوں میں ابر کیوں برسا نہیں

Daniyal@khan11
 

اف چٹخنے کی صدا سے کس قدر ڈرتا ہوں میں 
کتنی باتیں ہیں کہ دانستہ جنہیں سوچا نہیں 
اپنی اپنی سب کی آنکھیں اپنی اپنی خواہشیں 
کس نظر میں جانے کیا جچتا ہے کیا جچتا نہیں

Daniyal@khan11
 

بس یوں ہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں 
آئنے کی بات سچی ہے کہ میں تنہا نہیں 
بیٹھیے پیڑوں کی اترن کا الاؤ تاپئے 
برگ سوزاں کے سوا درویش کچھ رکھتا نہیں

Daniyal@khan11
 

کاسۂ زخم طلب لے کے چلا ہوں خالی 
سنگ ریزہ ہی کوئی آپ نے پھینکا ہوتا 
فلسفہ سر بہ گریباں ہے بڑی مدت سے 
کچھ نہ ہوتا تو خدا جانے کہ پھر کیا ہوتا

Daniyal@khan11
 

درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا 
کس کو منظور یہ زہر غم دنیا ہوتا 
کیا قیامت ہے کہ اب میں بھی نہیں وہ بھی نہیں 
دیکھنا تھا تو اسے دور سے دیکھا ہوتا

Daniyal@khan11
 

اپنی آواز کو بھی کان ترستے ہیں مرے 
جنس گفتار لیے پھرتا ہوں بازاروں میں 
تہمتیں حضرت انساں پہ نہ دھرئیے انورؔ 
دشمنی ہے کہ چلی آتی ہے تلواروں میں

Daniyal@khan11
 

آپ کے قصر کی جانب کوئی دیکھے توبہ 
جرم ثابت ہو تو چن دیجئے دیواروں میں 
آج تہذیب کے تیور بھی ہیں کاروں جیسے 
دفن ہو جائے نہ کل اپنے ہی انباروں میں

Daniyal@khan11
 

کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے 
کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں 
اب تو دریا کی طبیعت بھی ہے گرداب پسند 
اور وہ پہلی سی سکت بھی نہیں پتواروں میں

Daniyal@khan11
 

میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غم خواروں میں 
کل جو شامل تھے ترے حاشیہ برداروں میں 
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو 
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں

Daniyal@khan11
 

وہی اخلاص و مروت کی پرانی تہمت 
دوستو کوئی تو الزام نیا دے جاؤ 
کوئی صحرا بھی اگر راہ میں آئے انورؔ 
دل یہ کہتا ہے کہ اک بار صدا دے جاؤ

Daniyal@khan11
 

ایک بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے 
نا امیدی کو تحیر کی سزا دے جاؤ 
دشمنی کا کوئی پیرایۂ نادر ڈھونڈو 
جب بھی آؤ مجھے جینے کی دعا دے جاؤ

Daniyal@khan11
 

درد بڑھتا ہی رہے ایسی دوا دے جاؤ 
کچھ نہ کچھ میری وفاؤں کا صلا دے جاؤ 
یوں نہ جاؤ کہ میں رو بھی نہ سکوں فرقت میں 
میری راتوں کو ستاروں کی ضیا دے جاؤ

Daniyal@khan11
 

اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے 
اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی 
شبنم کی تراوش سے بھی دکھتا تھا دل زار 
گھنگھور گھٹاؤں کو برسنے کی پڑی تھی 
پلکوں کے ستارے بھی اڑا لے گئی انورؔ 
وہ درد کی آندھی کہ سر شام چلی تھی