تیرگی ٹوٹ پڑے بھی تو برا مت کہیو
ہو سکے گر تو چراغوں کو جلائے رکھنا
راہ میں بھیڑ بھی پڑتی ہے ابھی سے سن لو
ہاتھ سے ہاتھ ملا ہے تو ملائے رکھنا
سوچنا روح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا
یہ بھی کیا سانس کی تلوار بنائے رکھنا
اب تو یہ رسم ہے خوشبو کے قصیدے پڑھنا
پھول گلدان میں کاغذ کے سجائے رکھنا
دیکھی ہے ایک فلم پرانی تو یوں لگا
جیسے کہ کوئی کام کیا ہے ثواب کا
شوگر نہ ہو کسی بھی مسلماں کو اے خدا
مشکل سا اک سوال ہے یہ بھی حساب کا
انورؔ مری نظر کو یہ کس کی نظر لگی
گوبھی کا پھول مجھ کو لگے ہے گلاب کا
😄😄😄😄
طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا
اب یہ بھی کوئی کام ہے لکھنا کتاب کا
کھایا ہے سیر ہو کے خیالی پلاؤ آج
پانی پھر اس کے بعد پیا ہے سراب کا
جدا ہوگی کسک دل سے نہ اس کی
جدا ہوتے ہوئے اچھا لگا تھا
اکٹھے ہو گئے تھے پھول کتنے
وہ چہرہ ایک باغیچہ لگا تھا
پئے جاتا تھا انورؔ آنسوؤں کو
عجب اس شخص کو چسکا لگا تھا
مجھے خود سے بھی کھٹکا سا لگا تھا
مرے اندر بھی اک پہرا لگا تھا
ابھی آثار سے باقی ہیں دل میں
کبھی اس شہر میں میلہ لگا تھا
boooriat
چرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوار بدن پر
اور دست ستم گر بھی دکھائی نہیں دیتا
آنکھیں بھی ہیں رستا بھی چراغوں کی ضیا بھی
سب کچھ ہے مگر کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا
اب اپنی زمیں چاند کے مانند ہے انورؔ
بولیں تو کسی کو بھی سنائی نہیں دیتا
میں جرم خموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اسے کہیے جو دہائی نہیں دیتا
کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمہیں اذن رہائی نہیں دیتا
چین کا دشمن ہوا اک مسئلہ میری طرف
اس نے کل دیکھا تھا کیوں اور آج کیوں دیکھا نہیں
اب جہاں لے جائے مجھ کو جلتی بجھتی آرزو
میں بھی اس جگنو کا پیچھا چھوڑنے والا نہیں
کیسی کیسی پرسشیں انورؔ رلاتی ہیں مجھے
کھیتیوں سے کیا کہوں میں ابر کیوں برسا نہیں
اف چٹخنے کی صدا سے کس قدر ڈرتا ہوں میں
کتنی باتیں ہیں کہ دانستہ جنہیں سوچا نہیں
اپنی اپنی سب کی آنکھیں اپنی اپنی خواہشیں
کس نظر میں جانے کیا جچتا ہے کیا جچتا نہیں
بس یوں ہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں
آئنے کی بات سچی ہے کہ میں تنہا نہیں
بیٹھیے پیڑوں کی اترن کا الاؤ تاپئے
برگ سوزاں کے سوا درویش کچھ رکھتا نہیں
کاسۂ زخم طلب لے کے چلا ہوں خالی
سنگ ریزہ ہی کوئی آپ نے پھینکا ہوتا
فلسفہ سر بہ گریباں ہے بڑی مدت سے
کچھ نہ ہوتا تو خدا جانے کہ پھر کیا ہوتا
درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا
کس کو منظور یہ زہر غم دنیا ہوتا
کیا قیامت ہے کہ اب میں بھی نہیں وہ بھی نہیں
دیکھنا تھا تو اسے دور سے دیکھا ہوتا
اپنی آواز کو بھی کان ترستے ہیں مرے
جنس گفتار لیے پھرتا ہوں بازاروں میں
تہمتیں حضرت انساں پہ نہ دھرئیے انورؔ
دشمنی ہے کہ چلی آتی ہے تلواروں میں
آپ کے قصر کی جانب کوئی دیکھے توبہ
جرم ثابت ہو تو چن دیجئے دیواروں میں
آج تہذیب کے تیور بھی ہیں کاروں جیسے
دفن ہو جائے نہ کل اپنے ہی انباروں میں
کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے
کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں
اب تو دریا کی طبیعت بھی ہے گرداب پسند
اور وہ پہلی سی سکت بھی نہیں پتواروں میں
میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غم خواروں میں
کل جو شامل تھے ترے حاشیہ برداروں میں
زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو
زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں
وہی اخلاص و مروت کی پرانی تہمت
دوستو کوئی تو الزام نیا دے جاؤ
کوئی صحرا بھی اگر راہ میں آئے انورؔ
دل یہ کہتا ہے کہ اک بار صدا دے جاؤ
ایک بار آؤ کبھی اتنے اچانک پن سے
نا امیدی کو تحیر کی سزا دے جاؤ
دشمنی کا کوئی پیرایۂ نادر ڈھونڈو
جب بھی آؤ مجھے جینے کی دعا دے جاؤ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain