Damadam.pk
Daniyal@khan11's posts | Damadam

Daniyal@khan11's posts:

Daniyal@khan11
 

اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے 
اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی 
شبنم کی تراوش سے بھی دکھتا تھا دل زار 
گھنگھور گھٹاؤں کو برسنے کی پڑی تھی 
پلکوں کے ستارے بھی اڑا لے گئی انورؔ 
وہ درد کی آندھی کہ سر شام چلی تھی

Daniyal@khan11
 

لہراتے ہوئے آئے تھے وہ امن کا پرچم 
پرچم کو اٹھائے ہوئے نیزے کی انی تھی 
ڈوبے ہوئے تاروں پہ میں کیا اشک بہاتا 
چڑھتے ہوئے سورج سے مری آنکھ لڑی تھی

Daniyal@khan11
 

پڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ مٹ بھی گئی تھی 
بجلی نے گھٹاؤں پہ جو تحریر لکھی تھی 
چپ سادھ کے بیٹھے تھے سبھی لوگ وہاں پر 
پردے پہ جو تصویر تھی کچھ بول رہی تھی

Daniyal@khan11
 

جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے 
یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے 
مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری 
یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے 
گوہر اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ 
یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے

Daniyal@khan11
 

دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا 
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے 
آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں 
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے

Daniyal@khan11
 

اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے 
دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے 
سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی 
تو نے کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے

Daniyal@khan11
 

Yar koi quetta sy hy kya??

Daniyal@khan11
 

سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا 
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے 
اس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے اب کے 
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے 
آخری بات مجھے یاد ہے اس کی انورؔ 
جانے والے کو گلے سے نہ لگاؤں اپنے

Daniyal@khan11
 

شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے 
تو ملے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے 
تیرے رستے کا جو کانٹا بھی میسر آئے 
میں اسے شوق سے کالر پر سجاؤں اپنے

Daniyal@khan11
 

کیوں کسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے 
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے 
میں تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ 
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے

Daniyal@khan11
 

تجھے نہیں ہے ابھی فرصت کرم نہ سہی 
تھکے نہیں ہیں مرے ہاتھ بھی دعا کرتے 
انہیں شکایت بے ربطی سخن تھی مگر 
جھجک رہا تھا میں اظہار مدعا کرتے 
چقیں گری تھیں دریچوں پہ چار سو انورؔ 
نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے

Daniyal@khan11
 

ہمیں قرینۂ رنجش کہاں میسر ہے 
ہم اپنے بس میں جو ہوتے ترا گلا کرتے 
تری جفا کا فلک سے نہ تذکرہ چھیڑا 
ہنر کی بات کسی کم ہنر سے کیا کرتے

Daniyal@khan11
 

اس ابتدا کی سلیقے سے انتہا کرتے 
وہ ایک بار ملے تھے تو پھر ملا کرتے 
کواڑ گرچہ مقفل تھے اس حویلی کے 
مگر فقیر گزرتے رہے صدا کرتے

Daniyal@khan11
 

ab khof ni mujh ko us rah guzar sy..
mn door nikal aya hon us kanch nagar sy...
jo bhi hon acha ya bura apny liye hon..
mn khud ko ni dekhta oron ki nazar sy..

Daniyal@khan11
 

رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی 
اب نہ دیوار نہ زنجیر دکھائی دے گی 
وقت گزرا ہے پہ موسم نہیں بدلا یارو 
ایسی گردش ہے زمیں خود بھی دہائی دے گی

Daniyal@khan11
 

چل پڑا ہوں شوق بے پروا کو مرشد مان کر 
راستہ پر پیچ ہے یا پر خطر جیسا بھی ہے 
سب گوارا ہے تھکن ساری دکھن ساری چبھن 
ایک خوشبو کے لئے ہے یہ سفر جیسا بھی ہے 
وہ تو ہے مخصوص اک تیری محبت کے لئے 
تیرا انورؔ با ہنر یا بے ہنر جیسا بھی ہے

Daniyal@khan11
 

جس طرح کی ہیں یہ دیواریں یہ در جیسا بھی ہے 
سر چھپانے کو میسر تو ہے گھر جیسا بھی ہے 
اس کو مجھ سے مجھ کو اس سے نسبتیں ہیں بے شمار 
میری چاہت کا ہے محور یہ نگر جیسا بھی ہے

Daniyal@khan11
 

احساس مرا ہجر گزیدہ ہے ازل سے 
کیا مجھ کو اگر کوئی قریب رگ جاں ہے 
جو دل کے سمندر سے ابھرتا ہے یقیں ہے 
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے گماں ہے 
پھولوں پہ گھٹاؤں کے تو سائے نہیں انورؔ 
آوارۂ گلزار نشیمن کا دھواں ہے

Daniyal@khan11
 

حق بات پہ ہے زہر بھرے جام کی تعزیر 
اے غیرت ایماں لب سقراط کہاں ہے 
کھیتوں میں سماتی نہیں پھولی ہوئی سرسوں 
باغوں میں ابھی تک وہی ہنگام خزاں ہے

Daniyal@khan11
 

آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن 
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے 
پرتو مہر سے ہے چاند کی جھلمل انورؔ 
اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے