آسماں اپنے ارادوں میں مگن ہے لیکن
آدمی اپنے خیالات لیے پھرتا ہے
پرتو مہر سے ہے چاند کی جھلمل انورؔ
اپنے کاسے میں یہ خیرات لیے پھرتا ہے
شاخچہ ٹوٹ چکا کب کا شجر سے لیکن
اب بھی کچھ سوکھے ہوئے پات لیے پھرتا ہے
سوچئے جسم ہے اب روح سے کیسے روٹھے
اپنے سائے کو بھی جو سات لیے پھرتا ہے
شکوۂ گردش حالات لیے پھرتا ہے
جس کو دیکھو وہ یہی بات لیے پھرتا ہے
اس نے پیکر میں نہ ڈھلنے کی قسم کھائی ہے
اور مجھے شوق ملاقات لیے پھرتا ہے
یہی انداز تجارت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا
دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہوگا
آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انورؔ
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے ید بیضا ہوگا
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبیعت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہوگا
اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا
کب ضیا بار ترا چہرۂ زیبا ہوگا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہوگا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا
Rooh Matti Se Ya Matti Rooh Se Tang Hai...
Dono Ke Beech Shayad Sukoon o Aman Ki Jang Hai
Dekh Kar Tujhe Dukh Mein Yun Ehsas Hota Hai,Jaise Aaine Mein Khara Mera Aks Udas Hota Hai
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
چاند تارے بلاوجہ خوش ہے۔
میں تو کسی اور سے مخاطب ہو♥️
میں ابھی طفلِ مکتب ہو
مجھ کو سمجھایا جائے
دل مر سا گیا ہے
جلایا جائے کہ دفنایا جائے
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبیعت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہوگا
اس طرف شہر ادھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہوگا
کب ضیا بار ترا چہرۂ زیبا ہوگا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہوگا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہوگا
کوئی کیسے گزار لیتا ہے کیسی کے بغیر رات
درویش میرا تو اک پل نہیی کٹتا تیرے بغیر
منتشر ہوں مجھے یکجائی عطا کر مولا
دل کو بھی اک قوتِ بینائی عطا کر مولا
جوڑنا ہے تو کچھ اس ادا سے توڑ مجھے
اب نہ ٹوٹے یہ زعم، ایسا الم عطا کر مولا
اہم کردار ہوں میں اس قصے میں
مگر صرف قید ہے میرے حصے میں
نظریں جو پھِر گئی ہیں مصیبت کے وقت پہ
ہوں گی سرفہرست وہ ساری خودغرضیاں
اتراتے ہیں جو شان پہ اپنی اُڑان کی
پڑ جائیں گی اِک دن اُن چہروں پہ سردیاں
کیا فائدہ ہے تن پہ اِس اُجلے لباس کا
جب من نے پہن رکھیں ہوں کالی وردیاں
نظریں جو پھِر گئی ہیں مصیبت کے وقت پہ
ہوں گی سرفہرست وہ ساری خودغرضیاں
اتراتے ہیں جو شان پہ اپنی اُڑان کی
پڑ جائیں گی اِک دن اُن چہروں پہ سردیاں
کیا فائدہ ہے تن پہ اِس اُجلے لباس کا
جب من نے پہن رکھیں ہوں کالی وردیاں
اِک دن چلیں گی میری نہ تیری مرضیاں
اُس دن وہ سنے گا میری ساری عرضیاں
چبھے ہیں جو کانٹے اُن کا حساب ہوگا
بیکار جائیں گی نہ یہ چہرے کی زردیاں
mry malik mery dushmanon sy mera hisab lena..Ameen
اس قدم کے پیچھے کی، حقیقت کو بھی کھوج
کیوں میرا قتل کا، بس اعتراف دکھتا ہے
کامل فن ہے چہروں کو پڑھنا حاوی
ٹوٹے دل کا کب کوٸی شگاف دکھتا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain