نہ ہی کوئی راستہ نہ کوئی منزل ہے
غبار غم میں راستہ کوئی بتاتا بھی تو نہیں
فراق کے جاناں میں مرے تو نہیں مگر
زندگی کہہ سکے اب ایسا بھی تو نہیں
تم مجھ سے جتاتے ہو محبت بس جتاتے ہو
ترک تعلق نہ کیا مگر ملتے بھی تو نہیں
کئی بار ہی تو ائے تھے تیرے در کاسہ نظر لیے
پیاس نظر بجھانے کو اتے بھی تو نہیں
تمام عمر ہی نہ کوئی طلب و تمنا کی تجھ سے
عرض تمنا سمجھ نہ پائے اب ایسا بھی تو نہیں
" عورت پھول کی مانند ہے
اسے نرمی اور محبت کے ساتھ سنبھالنا چاہیے
بانہوں میں بھر کر وہ کہتے ہیں نرم سے لہجے میں
سکون میسر ہوتا ہے قبضے میں آ کر تیرے
آخری گھونٹ پہ کھلتی ہے محبت کی کلا
پہلی چسکی میں تو یہ جام بہت میٹھا ہے
میرے قصے میں تم آتے ہو
میرے حصے میں کیوں نہیں آتے
جو شخص درخت لگاتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ خود اُس کے سائے میں نہیں بیٹھے گا،
وہ کم از کم زندگی کے معنی سمجھنا شروع کر چکا ہے۔
میں نے اک زندگی بسر کر دی
تیرے نا دیدہ خد و خال کیساتھ
.....دہک اٹھے میرے عاض۔۔۔۔۔مہک اٹھی سانسیں
پھر اور کیا ہے ???...۔۔۔۔اگر یہ تیرا خیال نہیں
اگر بیوی خوبصورت اور با اخلاق ہو
تو یقین رکھو تمکو جنت ضرور ملے گی
پر اگر بیوی کی سہیلیاں زیادہ خوبصورت ہوں
تو دنیا ہی جنت ہے
تجھے عشق پہ پھر یقین ہو
تو اُسے تسبیوں پہ پڑھا کرے
میں کہوں کہ عشق ڈھونگ ہے
تو ،، نہیں نہیں ،، کہا کرے
مثلِ مہتاب.........! سہولت سے گزر جا ہم سے
ہم سیاہ بخت ہیں...گرہن نہ لگا دیں تجھ کو....
محبت میں برابر ی نہیں کی جاتی
کیونک محبوب کو ہمیشہ اپنے سے بہتر مانا جاتا ہے
جب بھی دیکھا چاند کو اس کے پورے جوبن پر
میرے تخیل میں تمہاری ہی تصویر رقصاں ہوئی...
نغمہ سرا ھیں تیرے لیے یوں تو دھڑکنیں
لیکن وہ کیا سُنے کہ جسے تو سُنائی دے
قرطاس پر بکھیر کے سارے حسین رنگ
کرتے ہیں آرزو کہ ہمیں تُو دکھائی دے....
کب ضروری ہے .شناسائے حقیقت ہی رہوں
زندگی بسر خیالوں میں بھی ہو سکتی ہے
دلکشی صرف حسینوں کی ہی جاگیر نہیں
کچھ کشش دیکھنے والوں میں بھی ہو سکتی ہے.........
پارسائی کآ مرض ان کو نہیں لگ سکتا
نیک دل لوگ گنہگآر ہوا کرتــــــــے ہیں!
مستوں کے جو اصول ہیں ان کو نبھا کے پی
اک بوند بھی نہ کل کے لیے تو بچا کے پی
کیوں کر رہا ہے کالی گھٹاؤں کے انتظار
ان کی سیاہ زلف پہ نظریں جما کے پی.
ڈھلنے لگی تھی رات کہ تُم یاد آ گئے
پھر یوں ہوا کہ' رات بڑی دیر تک رہی .
سونا پڑا ہے دل کا مکاں آپ کے بنا
رہ رہ کے اٹھ رہا ہے دھواں آپ کے بنا
یوں تو کھلے ہیں پھول کئی رنگ کے مگر
پھیکے پڑے ہیں دونوں جہاں آپ کے بنا
یہ سوچ کے میں گھوم رہا ہوں یہاں وہاں
راحت ملے گی دل کو کہاں آپ کے بنا
بس اس لیے ہی گاؤں سے میں شہر آ بسا
میں کیا کروں گا رہ کے وہاں آپ کے بنا
آدرشؔ کہہ رہا ہے کہ مت آؤ میرے پاس
برباد ہو گیا ہوں یہاں آپ کے بنا
میرا وجود مری دسترس میں کیسے ہو ۔۔۔۔
کہ مجھ میں مجھ سے زیادہ سما چکا ہے وہ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain