لفظ تاثیر سے بنتے ہیں ،تلفّظ سے نہیں!!
اہل دل آج بھی ہیں، اہل زبان سے آگے۔۔
جب تم ہی میرے مُقابل ہو تو فتح کیسی
جاؤ ہم ساری خوشیاں وار گئے , ہم ہار گئے
یادوں کی اذیت میں مقید رہے برسوں
جو لوگ محبت میں خیانت نہیں کرتے۔
مسیحا آپ ہیں زیرِ علاج، حیرت ہے!
یہ کوئے عشق کے الٹے رواج، حیرت ہے!
میرے دماغ کی بابت بزرگ کہتے ہیں
"ذرا سے کھیت میں اتنا اناج، حیرت ہے!"
میں سخت سہل پسند عورت تھی لیکن اب
برائے عشق میرے کام کاج، حیرت ہے!
ہمارے ہاں تو جو روٹھے اسے مناتے ہیں
تمہارے ہاں نہیں ایسا رواج؟ حیرت ہے!
"مہوش" دل بھی دُکھاتے ہو اور چاہتے ہو
ضمیر بھی نہ کرے احتجاج، حیرت ہے!
یعقوب تو نہیں ہوں مگر پھر بھی یار من
بینائی جارھی ھے تیری راہ تکتے تکتے
رفاقتیں بھی پابند سلاسل نہیں ہوتیں
جگنو قید میں رکھ کر نہیں پالے جاتے
کئے محبت سے جو تھے پہلے
گناہ سارے معاف کر دو
جہاں بھی دیکھوں دکھائی دو تم
نظر پہ ایسا غلاف کر دو
نہ کوئی اب میرے پاس آئے
سبھی کو ایسا خلاف کر دو
میں چاہوں بھی تو نہ جا سکوں اب
یوں کشتیوں میں شگاف کر دو
ہے سرد راتوں سی زیست اپنی
دعا کو میرا لحاف کر دو
سورج کا غروب ہوجانا تو دیکھا ہے
یہ دل کا غروب ہوجانا کیسا ہوتا ہے
دل کو پانی' میں رکھ دیا میں نے
آگ جیسی تھیں خواہشیں اس کی
میں مِرے واسطے بچا ہی نہیں
پہلے جیسا تو میں رہا ہی نہیں
جس کو مرجھا گئے ہو کہتے ہو
پھول تو وہ کبھی کھلا ہی نہیں
بہت گہرا ہے سکوں، بہت اجلی ہے خاموشی
بہت آباد لہجے میں، بہت سنسان ہے کوئی ...
تجھ کو کھو کر ہی تو یہ عہد کیا ہے خود سے
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہونے دینی.!!
پھر سے یادوں کی ہوئی شام چلی سرد ہوا
سج گیا پھر تیرے خوبواں سے مرے دل کا نگر
پھر تیری دید سے مہک اُٹھی ہیں راہیں دل کی
پھر سے چھایا ہے نگاہوں میں ترا حسنِ امر
اور تیری دید کہ آنکھوں میں بسا لی میں نے
پھر سے تصویر تیری دل میں سجا لی میں نے
کہنا کہ زمانے تو گزر جائیں گے لیکن
مجھ سے نہیں گزرے گا وہ لمحہ اُسے کہنا..
مجھ کو جنت سے محبت بھی سکھا سکتا تھا
جس نے ہر روز ڈرایا تھا جہنم سے مجھے
ہم سے پوچھو ہم بتائیں گے سارے درجے تمہیں ،
علم ریاضی جیسے ،انساں سے مراسم ہیں میرے............
میں پارسا نہیں ہوں ، کِردار کَش سے کہنا
ہے داغ دِل لگی کا، میلا ہے میرا دامن ۔۔۔
محبّت خوبصورت ہے
اتنی خوبصورت ہے
کہ اگر
تم کسی سوکھی ٹہنی پر محبت پھونک ڈالو تو
ہزاروں پھول مہک اٹھیں.
اے جانِ غزل، جانِ وفا، جانِ محبّت
قائم ہے تیرے حُسن سے ایمانِ محبّت
دیکھو تو مرے سینے کی داغوں کی بہاریں
کیا خوب گلستاں ہے گلستانِ محبّت
کچھ رقص کر ، کچھ ہائے ہو ، اے دل ہمیں دکھلا کہ تو
قیدی بھی ہے، وحشی بھی ہے، زخمی بھی ہے، زندہ بھی ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain