"جسم پھر بھی تھک ہار کر سو جاتا ہے ذہن کا بھی کوئی بستر ہونا چاہیے."
اپنے ہونٹوں سے اتری ہوئی چائے دے کر
وہ مجھ پر احسانوں کے پہاڑ گرا دیتا ہے
تم جس کو دستیاب ہو لازم ہے اُس پہ کہ
ہر روز اپنے بخت کا صدقہ دیا کرے ...
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں یہ عیب ہے محسن
میں جس شخص کو چھو لوں وہ میرا نہیں رہتا
تُمہیں خَبر ہے" تمہاری بے اعتنائی سے؟
وہ گُل بھی زَرد ہیں جو رونقِ بہار تھے ۔
خوبصورت ہے۔۔۔!!!
وہ جگہ ۔۔۔۔ جہاں انسان کی عزت ہے۔۔۔
وہ مسکراہٹ ۔۔۔جو روح کی گہرائیوں سے پھوٹتی
بے اختیار لبوں کو چھو لیتی ہے۔۔۔
وہ آنکھ ۔۔جو اچھائیوں کو دیکھتی ہے۔۔۔
وہ سادہ دلی۔۔۔جو اپنا بنانے کا گر جانتی ہے۔۔۔
وہ دل ۔۔جو محبت انسانیت سے لبریز ہے۔۔۔۔!!!!
وہ چہرے۔۔۔جو زندگی سے بھرپور ہیں۔۔۔!!!
نشہ ہو کر بھی حلال ہے
یہ چائے کا پیالہ بھی کمال ہے☕
بہت کچھ تجھ سے بڑھ کر بھی میسر ہے
نہ جانے پھر بھی کیوں تیری ضرورت کم نہیں ہوتی
ﺟﻨﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﮐﺘﻨﯽ ﺷﺎﻣﯿﮟ ﺁﺋﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺁ ﮐﺮ ﺑﯿﺖ ﮔﺌﯿﮟ
ﺩﻝ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﮬﭧ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺳﺘﮏ
ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﯽ
ﻟﯿﮑﻦ !!
ﺍﺗﻨﮯ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺁﺝ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ
ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ آنکھیں
ﺑﮭﯿﮓ گئیں
کچھ تو بھیجو
اپنی آواز ,اضطراب یا مسکان
اک پھول ،
ذرا سا اعتبار ،
ان کہی بات یا کوئی پیغام
معمولی سا اشارہ،
" تُم " یا تُم سے جُڑی
کوئی شے
ہر طرف اُداسی ہے
مجھے دل کا کمرہ
سجانا ہے ۔۔۔
لفظ تاثیر سے بنتے ہیں ،تلفّظ سے نہیں!!
اہل دل آج بھی ہیں، اہل زبان سے آگے۔۔
رخ آفتاب ہونٹ کنول چال حشر خیز
کس شے کی اب کمی ہے تمہارے شباب میں
: میں نے کہا بھی تھا، یہاں سے نکل پڑتے ہیں.
اے دل! تیرے لـحاظ میں مارا گیا ہوں میں ___!!!
اُسکی یہی مرضی ہے تو درمآں کسے درکآر؟
پھلتے رھیں یہ درد رھے زخم ہرا اور۔!
ہر لا حاصل چیز حاصل ہونے سے پہلے
بے
حد خوبصورت اور قیمتی لگتی ہے
ملال ھے مگر اتنا ملال تھوڑی ھے
یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ھے
بس اپنے واسطے ھی فکر مند ہیں سب لوگ
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ھے
پروں کو کاٹ دیا ھے اڑان سے پہلے
یہ خوف ھجر ھے شوقِ وصال تھوڑی ھے
مزا تو تب ھے کہ ھار کے بھی ہنستے رھو
ھمیشہ جیت ھی جانا کمال تھوڑی ھے
لگانی پڑتی ھے ڈبکی ابھرنے سے پہلے
غروب ھونے کا مطلب زوال تھوڑی ھے ۔۔۔
بھیگے رَستوں پَہ ترے ساتھ ٹہلنا تھا مُجھے,
اَیسے مُوسم مَیں بَھلا چُھوڑ کے جاتا ہے کوئی؟
میں آرزو تو نہیں ہوں مگر تو پال کے دیکھ
محبتوں میں کوئی راستہ نکال کے دیکھ
میں اپنی دونوں طرف ایک سا ہوں تیرے لئے
کسی سے شرط لگا پھر مجھے اچھال کے دیکھ
میں اپنے پاوں کے ناخن سے سر کے بالوں تک
فقط تیرا ہوں کہیں سے بھی کھول کھال کے دیکھ
اور ہمارے تھامے ہوئے ہاتھ
،کٹ تو سکتے ہیں،،چھوٹ نہیں سکتے
وقت رخصت کی نشانی جو طلب کی تو کہا
داغ کافی ہے جُدائی کا اگر یاد رہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain