"-تیری کئی تصویریں ہیں پاس میرے
مگر یہ دل پھر بھی دیدار چاہتا ہے !
عورت ذات کو شکر کرنا چاہیے کہ اللہ نے انکو مرد جیسی نعمت سے نوازا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
تم میری زندگی کی حسرت ہو اور
حسرتیں ہمیشہ ادھوری رہ جاتی ہیں
محبت میں زبردستی اچھی نہیں ہوتی جب تمہارا دل چاہے تب میرے ہو جانا
دل چاہتا ہے کچھ ایسا لکھوں
لفظوں کی آہیں نکلیں
قلم سے خون ٹپکے
کاغذ پر درد بکھرے
میری خاموشی ٹوٹے
*پھر اذیت سے جان چھوٹے۔
رقص کرتے ہوئے صدقہ بھی اُتارا جائے
کیسے ممکن ہے تجھے جیت کے ہارا جاٸے
ایک بھی شخص بھری بھیڑ میں اپنا نہیں ہے
ایسے حالات میں کس کس کو پکارا جائے
شہرِ قاتل ہے یہ،انسان کہاں بستے ہیں
آدمی آدمی کے ہاتھوں سے مارا جائے
عشق کے کھیل میں انعام کہاں ملتا ہے
اس میں تو جیت کے بھی سارے کا سارا جاٸے
مجھ پہ لازم ہے رکھوں میں ترے جذبوں کا خیال
چاہتی ہوں مجھے ہر آن پکارا جاٸے
مانگتے کب ہیں دعا لوگ ثمینہ سید
چاہتے سب ہیں کہ بس خوان اُتارا جائے
تمہارے ہاتھ کے دستک کی آس میں محسن
میں اپنے گھر سے کہیں نہیں گیا برسوں ۔
سحر ہو جانے کو ہے اور دیپ بجھ جانے کو ہے
کیا سجی محفل ہے لیکن تو کبھی اتا نہیں ہے
عمر گزری ہے جھلستے ہوئے صحرا میں...!!!
'"کیا کریں گے تیری دیوار کا سایہ لے کر...!!!
گفتگو اُسی سے کیجئے__جو آپ کی زبان سے بھی زیادہ آپ کے دل کو سننے کی مہارت رکھتا ہو___
سو مجھ کو ہار کے رکھنا پڑا ہے اپنا بھرم
وہ داؤ کھیل رہا تھا میرے سکھائے ہوئے!
اس دور کے انسان کو کس انداز سے جانچوں؟
ذرے کو یہ دعویٰ ہے کہ سورج سے بڑا ہوں
میں نے مانگی تھی اجالے کی فقط ایک کرن
تم سے یہ کس نے کہا ____ آگ لگا دی جائے...!
نجانے کب تھا، کہاں تھا! مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے
کچھ اپنوں نے اداس کر دیا ورنہ
لوگ مجھ سے مسکرانے کا راز پوچھا کرتے تھے
لازم نہیں کہ عقل ہی کُلیہ ہو جیت کا
منزل بہت سے پاتے ہیں بحرے جُنون سے
کیوں تج دیں زندگی کو کمانے میں زر بہت
تھوڑا ہی ٹھیک ہے جو یہ گُزرے سُکون سے
O bella ciao, bella ciao, bella ciao, ciao, ciao
Una mattina mi son alzato
E ho trovato l'invasor
O partigiano, portami via
O bella ciao, bella ciao, bella ciao, ciao, ciao
O partigiano, portami via
Che mi sento di morir
O partigiano
Morir
Ciao, ciao
Morir
Bella ciao, ciao, ciao
O partigiano
O partigiano
Bella ciao, ciao, ciao
رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے
آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ
ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے
لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے
*میں کیا کہوں کے اس کا ساتھ کیسا ہے*
*وہ ایک شخص پوری کائنات جیسا ہے*
دل مخلص تھا تیری محبت میں
ورنہ لوگ اور بھی میسر تھے دل لگانے کو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain